چین کے خلاف بھارت کی جنگی حکمت عملیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنی چاپلوسی پالیسی کی وجہ سے شروع دن سے ہی امریکہ کا لاڈلا رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ نے بھی چین اور روس کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت کو اہمیت دیئے رکھی۔ صدر اوبامہ نے اپنے آٹھ سالہ دور حکومت میں دو بار بھارت کا دورہ کیا۔ صدر ٹرمپ نے چند اختلافات کے باوجود بھارت کا دورہ کیا ۔ انہی تعلقات کی بنا پر بھارت کے دماغ میں خناس بھر گیا اور وہ خطے میں چودھراہٹ کے خواب دیکھنے لگا۔ خطے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات جارحانہ رہے ہیں۔ نیپال ، بھوٹان کی تو معیشت، خارجہ پالیسی بھارت کے ہاتھوں میں رہی ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک تو بھارت کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ بھارت کے ہمسائے میں برما اور دوسری طرف سری لنکا بھی اس قابل نہیں کہ بھارت کے ساتھ آنکھ ملا کر بات کر سکیں۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد ویسے ہی پاکستان مخالفت میں بھارتی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں۔ رہ گیا ایک پاکستان تواس کے ساتھ ویسے بھی بھارت کی کبھی نہیں بنی مگر بھارت کو یہ علم ضرور ہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جو اس کے ساتھ پنجہ آزمائی کر سکتا ہے۔ بات خطے کے چھوٹے ممالک تک ہی نہیں رہی بلکہ بھارت نے امریکی شہ پر چین کے ساتھ بھی اسی جارحانہ رویے کا اظہار کیا۔ چین کے ساتھ سرحد جو لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) کہلاتی ہے پر اپنی عسکری قوت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ وادی گلوان، دولت بیگ اور دوسری اہم جگہوں پر فوجی چوکیاں بنائیں۔ سڑکیں بنائیں تاکہ کسی بھی تصاد م کی صورت میں فوجیں سرعت کے ساتھ حرکت کر سکیں۔ خاص طورپر دولت بیگ قصبے میں ایک فوجی اڈہ بنایا ۔ اس قصبے کی اہمیت یوں ہے کہ یہاں سے پاک چین شاہراہ قراقرم صرف آٹھ کلومیٹر دور ہے ۔ بھارت کی نظر اس شاہراہ پر تھی کہ اس کو بلاک کر کے پاکستان اور چین کا زمینی راستہ ختم کر دیا جائے تو ساتھ ہی سی پیک منصوبہ بھی سبوتاژ ہو جائے گا۔
پاکستان اور چین بھارتی حکمت عملی کو سمجھ گئے اور چین نے آگے بڑھ کر گلوان وادی ، گلوان دریا اور لداخ پر اپنا قبضہ کر لیا۔ لداخ کو تو ویسے بھی چین اپنا حصہ کہتا ہے کیونکہ جب گزشتہ برس بھارت نے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے دو حصوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تبدیل کیا تو چین نے بھرپور طریقے سے اس پر احتجاج کیا تھا۔ بہرحال گزشتہ ماہ چین کے ساتھ تصادم میں جہاں بھارت نے اپنے بیس فوجی ہلاک کروائے وہاں اپنا علاقہ بھی گنوایا۔سوال یہ ہے کہ کیا چین جیسے بڑے طاقتور ملک کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے مودی سرکار نے کچھ سوچا بھی تھا، کوئی حکمت عملی بھی بنائی تھی یا ایسے ہی چین پر چڑھ دوڑے پھر بھارت کا جو حشر ہوا ، وہ دنیا نے دیکھا۔ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز نے 24 جولائی کے شمارے میں انکشاف کیا ہے کہ مودی سرکار نے چین سے جنگ کیلئے پانچ حکمت عملیاں بنائیں مگر وہ سب کی سب ناکام ہوگئیں۔ سب سے پہلے تو یہ حکمت عملی بنائی کہ چین کو زیادہ اہمیت نہ دو۔ اگر ہمارے علاقے میں آکر بیٹھ گیا ہے تو خود ہی چلا جائیگا۔ اپریل ، مئی میں مودی سرکار نے کورونا کا بہانہ بنا کر چینی پیش قدمی کو نظر انداز کیا۔ عوام کو کچھ نہیں بتایا۔ بھارتی علاقے پر چینی قبضہ ہوگیا۔ آخر جب جون میں تصادم ہوا تو دنیا اور بھارتی عوام کو پتہ چلا کہ چین کہاں تک آ پہنچا ہے۔ دوسری حکمت عملی یہ بنائی کہ چین کو دھمکیاں دی جائیں کہ اگر آپ ہمارے علاقے سے واپس نہ گئے تو ہم آپ کے ساتھ معاشی بائیکاٹ کر دیں گے۔ آپ کی 50 ، 60 ایپس بند کر دیں گے۔یوں آپ معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائیں گے۔ ہمارے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ ہم ہواوے کو اپنے ملک میں نہیں آنے دیں گے اور نہ ہی ہائی وے بنانے دیں گے۔ یہ حکمت عملی بھی نہ چلی۔ بلکہ الٹا نقصان بھارت کو ہی ہوا۔ تیسری حکمت عملی یہ تھی کہ بھرپور فوجی قوت کا مظاہرہ کیا جائے ۔ سرحد پر فوج، جنگی ہتھیار اور فضائیہ کا مظاہرہ کیا جائے۔ چوتھی حکمت عملی یہ تھی کہ قبضہ ہوگیا۔ اب دنیا میں شور مچایا جائے اور واویلا کیا جائے کہ چین ہم پر چڑھ دوڑا ہے۔ یوں دنیا ہماری حمایت میں دوڑی چلی آئے گی اور چین کے خلاف ہماری مدد کرے گی۔ ہم نے دیکھا کہ کسی ملک نے بھی بھارت کی حمایت میں آواز تک نہیں اٹھائی۔ خطے کے ممالک نیپال ، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش جو کل تک بھارت کی غلام بنے ہوئے تھے، آج اس کی حمایت میں ایک قدم بھی بڑھانے سے انکاری ہیں۔ ایران جس کی چاہ بہار بندرگاہ پر بھارت نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، بھارت کو اپنے ہاں تمام منصوبوں سے نکال باہرکیا۔ افغانستان جہاں بیٹھ کر ہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کرتا رہا ہے ، وہ بھی خاموش ہے۔ تو یوں بھارت کی یہ حکمت عملی بھی ناکام ہوگئی۔ آخر میں بھارت نے مذاکرات کی حکمت عملی اپنائی کہ چین کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کئے جائیں ۔ اب تک مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ چینی فوج بھارتی علاقے خصوصاً لداخ میں جہاں تک گھس آئی تھی ، اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئی تھیں، وہاں سے دو دو کلومیٹر واپس جانے کا فیصلہ ہوا۔ اور اس خطے کو بفر زون قرار دیا گیا۔ یعنی یہاں جنگی سرگرمی نہیںہوگی۔ بھارتی سرکار اسی پر خوش ہے مگر شائد مودی کو کسی نے یہ بات نہیں بتائی کہ تمہاری فوج اپنے ہی علاقے میں پیچھے ہٹ آئی ہے اور تمہارے اپنے ہی علاقے کو بفر زون بنا دیا گیا ہے۔ چینی فوج تو جوں کی توں گلوان وادی میں بیٹھی ہے جہاں سے گلوان دریا کے پانی کا رخ موڑ کر اس نے بھارت کو پیاسا بھی کر دیا ہے۔ یہ تو تھیں مودی سرکار کی چین کے خلاف جنگی حکمت عملیاں اورناکامیاں۔ مگر اب بھی مودی پرامید ہیں کہ اگر ان کو رافیل طیارے مل گئے تو وہ چین کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ تو چلیں 5 عدد رافیل طیارے جلد ہی بھارتی سرزمین پر ہوں گے ۔مگر ان کو چلانے کیلئے بھارتی پائلٹوں کو ابھی ٹریننگ بھی دی جائے گی۔ جس میں ظاہر ہے کچھ وقت لگے گا۔ دیکھیں کب بھارت چین کو ناکوں چنے چبواتا ہے؟