کرونا وائرس اور عید قربان
اس سال کی دوسری عید بھی کرونا وائرس کی وجہ سے مختلف تھی ۔ جوش و جذبہ دیکھنے میں نہیں آیا ۔ منڈیوں میں بھی مال بہت کم تھا ۔ اس بار قصائی زیادہ جانور کم تھے۔پہلی بار کار واش پر کرونا کے خوف سے لوگ اپنے جانور نہلانے کیلئے لے گئے ۔ یہ منظر کرونا کی وجہ سے ہی دیکھنے کو ملے۔ وائرس کے خوف سے یا حفاظتی تدابیر سے کئی لوگ اس سال قربانی سے محروم رہے ۔عیدین کی نمازیں ادا نہیں کر پائے۔ ہم یہ عید حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور حضرت اسماعیل علیہ اسلام کے عظیم جذبہ قربانی کی یاد میں ہر سال مناتے ہیں ۔ قربانی سنت ابراہیمی ہے۔فلسفہ قربانی یہ ہے کہ ا ﷲ تعالی کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ اس کا خون ، صر ف ہمارا تقوی اس کی بار گاہ میں پہنچتا ہے۔ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جانور قربان کرنے سے بہتر ہے کہ ہم یہ رقم غربا میں تقسیم کر دیا کریں ۔ بلاشبہ یہ قابل تحسین عمل ہے لیکن اس دن کے حوالے سے اس عید قربان کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور بڑی اہم ہے۔ یہ عیدقربان جانوروں کی قربانی کے لئے مخصوص دن ہے ۔جو لوگ قربانی دینے کی استطاعت رکھتے ہیں کہا گیا ہے وہ ضرور قربانی دیں جو ایسا نہیں کرتے ان کیلئے فرمایا گیا ہے کہ وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئیں ۔ قربانی کے گوشت کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ تمام گوشت کو مکس کریں پھراس کے تین حصے اویش ،خویش اور درویش کے سب بانٹ دیں اب چونکہ یہ عید گزر چکی ہے ۔لہذا ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ہم نے یہ دن کیا اسی طرح منایا ہے جس طرح سے اسلام میں منانے کا کہا گیا ہے ۔وہی کچھ کیا ہے جو اسلام بتاتا ہے ۔ اپنی خامیوں کا احتساب خود کریں ۔کسی دوسرے کی خامیوں پر لعن طعن کرنے کی ضرورت نہیں ۔ معاملہ بندے ا ور خدا کے درمیان ہے ۔لہذا تنقید سے پرہیز کریں ۔ وہ کام کریں جن کے کرنے کو اسلام میں کہا گیا ہے اور وہ کام جن کو کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ کام نہ کریں ۔ جھوٹ نہ بولیں ، ملاوٹ نہ کریں ،دھوکہ نہ دیں ، کسی کو تکلیف نہ دیں۔ انصاف کریں ۔ مگرفراڈ دھوکہ کرنے والے کرونا سے بھی نہ ڈرے۔کہا جاتا ہے دو دوست قربانی کا جانور خریدنے نکلے ۔ منڈی کیا تھی روڈ کے کنارے جانور فروخت ہو رہے تھے۔ کار فٹ پاتھ کے کنارے کھڑی کی ۔کافی دیر تک کوئی کچھ نہ ملا ۔پھر اچانک ایک الگ سے ایک صحت مند بکرا دکھائی دیا ۔ مالک سے اس کی قیمت پوچھی تو مناسب لگی لیکن اس نے ساتھ ہی ایک شرط رکھ دی کہ مجھے گھریلو کام کاج کے لئے گدھا خریدنا ہے ۔اگر گدھا اس قیمت کا مجھے آپ دلا دیں تو میں یہ بکرا اس کے بدلیں میں دینے کو تیار ہوں ۔ ہم دونوں اس گدھے والے کے پاس گئے ۔ گدھے کے دام پوچھے تو مناسب لگے ۔ہم نے فورا اسے پیسے دئے اور گدھے کی رسی کھنچتے ہوئے اس بکرے والے کی طرف چل دئے لیکن اب نہ وہاں بکرا تھا اور نہ بکرے والا ۔جب پیچھے مڑ کر گدھے والے کو دیکھا تو وہ بھی غائب ۔ ماسک کی وجہ سے پہنچان نہیں سکتے تھے کہ یہ کون لوگ تھے ؟ اب ہمارے پاس بکرے کی جگہ گدھا تھا ۔ہر کوئی ہم پر حیرانگی سے دیکھتا کہ یہ بابو قربانی کے جانور کے بجائے گدھا خرید کر کیوں لے جا رہے ہیں ؟کیا انہیں بکرے اور گدھے میں پہچان نہیں رہی ۔بعض تو اونچی آواز میں کہتے سر یہ بکرا نہیں گدھا ہے ۔ یوں لگتا کہ ہم بھی گدھے ہی ہوں ۔ واقعی یہ شک اب حقیقت میں بدل چکا تھا ۔لوگ وڈیو بنا رہے تھے ۔ ہر کوئی ہم پر طرح طرح کے فقرے کس رہا تھا ۔ ہم دونوں شرم کے مارے پانی پانی ہو رہے تھے ۔ا یسے میں ایک صاحب آئے ۔ پوچھا بابو گدھا بیچنا ہے ۔کہا ہا ں ہاں ؟کہا میرے پاس پانچ ہزار ہیں ۔ اگر دینا ہے تو دے جائیں ۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پانچ کا نوٹ لیکر فوری جیب میں ڈالا اور گدھے کی رسی اس حوالے کی اور کار میں بیٹھ کر واپس آفس چلے آئے ۔ جب نوٹ جیب سے نکال کر پرس میں رکھنے لگا تو دیکھا تو وہ نوٹ جعلی تھا۔ کمبخت کو کرونا کا بھی خوف نہ آیا ۔اگر کسی کو موت کا خوف نہیں ہے تو اسے کرونا کا خوف کیوں کر ہو گا ؟ عید کے روز میرے دوست خالد کا آسٹریلا سے عید مبارک کا فون آیا ۔ بتایا ہماری یہاں کل عید تھی مگر قربانی کا گوشت آج ملا ۔ کہا میں سمجھا نہیں۔ کہا ہم جس سے حلال میٹ لیتے ہیں اسے ہی قربانی کی رقم دی تھی ۔ عید کے روز اس نے ہمارے نام کی قربانی تو کر دی تھی گوشت بھی بنا دیا تھا لیکن قانون کے مطابق گوشت ایک دن فریزر میں رکھ کر دیا جاتا ہے ۔ تازہ گوشت لے جانے کی اجازت نہیں۔بتایا کہ پردیس میں ایک بار بیل کی قربانی کا تجربہ ہوا ۔ بتایا کہ بیل کو گورے نے سر میں پہلے بلٹ مار کر گرایا ، پھر چھری سے ہم نے اس بیل کو ذبح کیا ۔یہ بہت مشکل کام ہے ۔ اس لئے یہاں ہم بیل کی قربانی کرتے ہیں ۔ قربانی کے گوشت میں یہاں نہ سری نہ پائے ، پھیپڑے گوشت کے ساتھ دئے جاتے ہیں ۔ میرے پڑوسی اکرام بٹ نے اپنا تجربہ بتایا کہ مجھے برطانیہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ عید قربان مناے کا اتفاق ہوا ۔ وہاں جب قربانی کا گوشت لینے گئے تو گوشت دیکھا تو یوں لگا کہ یہ کسی چھوٹے جانور کا ہے ۔ میٹ شاپ مالک سے پوچھا تو کہا بلکل آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہمیں بکنگ کے موقع پر نہیں بتایا گیا تھا کہ کس عمر کا بکرا چائیے ۔ وہ ہمیں شاپ کے پیچھے فارم میں لے گیا جہاں تمام بکرے اسی عمر اور سائز کے تھے ۔ ان کے برابر میں بھیڑ یں بھی تھیں ۔جو سال سال کی لگ رہی تھیں ۔ہم نے بتایا ہم ان کی قربانی دینا پسند کریں گے ۔ پھر اسنے ہم سے پہلے والا گوشت لے کر بھیڑ کو ذبح کیا اور گوشت بنا کر دے دیا ۔چند دوستوں کو پاکستان میں آن لائن قربانی دینے کا اتفاق ہوا ۔بتایا کہ یہ تجربہ اچھا نہیں رہا ۔کہا قربانی وہی اچھی جو آپ خود خرید کر اپنے سامنے کرتے ہیں ۔اس سال کرونا نے ہر چیز ہی بدل کر ر کھ دی ہے ۔ مہنگائی کا بم پٹرول کی شکل میں اگر گرانا ہی تھا تو عید کے بعد گراتے مگر عید کے روز ا مہنگائی کا بم گرانے کی کوئی لاجک سمجھ نہیں آئی ۔ شاید ایسا کرونا کی وجہ سے مہنگائی کا بٹن کسی سازشی سے دب گیا ہو ۔یا سمجھنے والے سمجھ رہے ہوںکہ غریب تو پہلے کرونا سے مر رہے ہیں اگر مہنگائی سے مر گئے توکیا ہوا ؟
نکی جئی اک گل تے دسو
غربت دا کوئی حل تے دسو
جیون دے سبھ دل مک جاون
انجدا کوئی ول تے دسو