قربانی کے بعد قربانی

عیدالضحیٰ سے پہلے ہی سیاسی قربانیوں کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں اور اپوزیشن کا اے پی سی بلانے کا عندیہ ، بلاول بھٹو زرداری ، میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن کے مقتدر حلقوں نے حکومت گرانے کا عندیہ دے دیا تھا جبکہ عید سے صرف تین دن پہلے شدید تر عوامی دبائو کے نتیجے میں کپتان کی دو وکٹیں گِر گئیں جبکہ عید کے بعد ملکی سیاسی صورت حال بہت گھمبیر ہے۔ میں اس بات پر آج بھی مصر ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیک پاور اور تائید اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن والے ابھی نتائج سے مایوس نہیں ہوئے۔دراصل کرونا کا عالمگیر بحران موجودہ حکومتی کارکردگی کی وجہ قرار پا رہا ہے۔سپریم کورٹ نے 20جولائی 2020ء کو خواجہ برادران کی ضمانت کیس کے تفصیلی فیصلے میں تین اہم نکات کی نشاندہی کی۔ جسٹس مقبول نے 87صفحات پر مشتمل فیصلے میں تحریر کیا کہ نیب کا رویہ ملکی مفاد کے بجائے ملک کو نقصان پہنچانے کا ہے۔ نیب سیاسی تقسیم کے ایک طرف کے افراد کے خلاف مالی الزامات ہونے کے باوجود کارروائی میں ہچکچا رہا ہے جبکہ دوسری طرف کے افراد کو مہینوں سالوں کے لیے گرفتار کیا جا رہا ہے۔ دوسری بات انہوں نے یہ کی کہ ملک میں احتساب کے لیے بننے والے مختلف قوانین کا استعمال مخالفین کو دبانے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ خواجہ برادران کا یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی پامالی، آزادی سے محرومی اور انسانی عظمت کی توہین کی کلاسک مثال ہے۔ تیسری بات انہوں نے فیصلے میں یہ کہی کہ ’’لگتا ہے خواجہ برادران نے ایسا جرم نہیں کیا جس کا نیب ٹرائل ہو۔ جسٹس مقبول باقر نے اپنے فیصلے کے آخر میں یہ شعر بھی لکھا: ’ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔‘‘ دوسری طرف انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو بھی ناانصافی کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ نیب کو قوانین کے تحت تین ماہ میں کسی کیس کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے مگر اس کے پاس بیس سال قبل کے کیس بھی فیصلہ طلب ہیں۔ فاضل جج نے بجا فرمایاکہ احتساب کے لیے بننے والے قوانین کو مخالفین کو دبانے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اور یہ کب کب ہوتا رہا؟ ان ادوار میں مشرف دور کے علاوہ پی پی پی اور لیگی ادوار بھی آتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر کے فیصلے کے بعد نیب کے خلاف بیانات اور الزامات کا ایک طوفان نظر آنے لگا۔ بلاول بھٹو زرداری تو زیادہ ہی جذباتی ہو کر کہہ رہے تھے نیب کو بند کر دیا جائے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب بھی یہ بات دہرا چکی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی، میاں شہبازشریف اور آصف زرداری اور دیگر قائدین جو آج اپوزیشن میں ہیں ان کے نیب اور آج کے نیب چیئرمین کے بارے میں سخت بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔نیب میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ سب کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے۔ کچھ تو نیب کو مزید بااختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ،کچھ اس کا یکسر خاتمہ چاہتے ہیں ایسے لوگوں میں نیب کی زد میں آنے والے اور ان کے دل و جان سے فدا ہونے کے دعوے کرنے والے حامیان ہیں۔ احسن اقبال پر نارروال سپورٹس کمپلیکس میں بے ضابطگیوں کا ریفرنس دائر ہے۔ اس کی تیس کروڑ سے لاگت تین ارب روپے تک پہنچ گئی۔اس کیس میں ان کو نیب نے گرفتار بھی کیا۔ احسن اقبال جہاں نیب کی مخالفت کرتے ہیں وہیں انہوں نے ناروال سپورٹس کمپلیکس کے فنڈز روکنے پر وزیراعظم عمران خان کے خلاف ر یفرنس دائر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ نیب کی کارکردگی پر پارلیمنٹ کے اندر بھی تنقید ہوتی ہے۔میڈیامیں بھی احتساب کی زد میں آنے والوں کے حامی بھی بندوق کی نالی نیب کی جانب کیے رہے ہیں۔ میں بھی ایمانداری سے نیب میں اصطلاحات کا حامی ہوں۔ میرے وطن کو بے دردی سے لوٹا گیا جس کے شواہد قارئین آپ کے سامنے ہیں۔ کہیں ٹی ٹیز نظر آتی ہیں کہیں فیک اکائونٹس دکھائی دیتے ہیں۔ سرے محل، رائیونڈ محل ،ایون فیلڈ،وائٹ کوئین بنگلہ، اللہ ان کے مالکان کو مبارک کرے۔ اگر یہ قوم کے پیسے سے بنے ہیں تو یہ ظلم ہے ۔ یہ کھربوں ڈالر کی رقوم میرے وطن کی ترقی و فلاح کے لیے استعمال ہوتیں تو یقین مانیں آپ کو کوئی بھی بے روزگار اور بے گھر نظر نہ آتا۔اب نیب میں اصلاحات کے لیے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں سفارشات کے لیے 24رکنی کمٹی تشکیل دی ہے۔اس کمیٹی میں اس میں حکومت کے 13اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہیں۔
بہرحال سیاسی جوتشی اس بات پرمُصر ہیں کہ قربانی کے بعد ایک بڑی قربانی ہوگی۔عید بخیریت گزر چکی ہے اللہ خیر کرے۔ اب پھندہ ایک ہے اور گردنیں بے شمار۔دیکھئے اب کس کے سر پربلا بیٹھتی ہے؟