عمران خان کی کابینہ کے دو وزراء نے بڑا نام کمایا ہے۔ فواد چودھری اور شیخ رشید صاحب، فواد چودھری صاحب کے مخالفین ان پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں۔ کوئی انہیں مرغ باد نما کہتا ہے، ایسا پرندہ جو اقتدار کی ہواؤں کا رُخ پہچانتا ہے۔ پارٹیاں بدلنے میں اسے کافی مہارت حاصل ہے۔ جب یہ لوگ دشنام طرازی پر آتے ہیں تو انہیں ’’فساد چودھری‘‘ یا ’’فراڈ چودھری‘‘ کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ لیکن مخالفین ایک بنیادی بات بھول جاتے ہیں، ایسے شخص کو جو پارٹی قبول کرتی ہے وہ انکے ماضی کے باوصف ان کی صلاحیتوں کی معترف ہوتی ہے۔ کسی "TURN COURT" کو شمولیت کے ساتھ ہی اتنا بڑا عہدہ ویسے ہی نہیں دیا جاتا!
فارسی زبان کا محاورہ ہے:
تامرد سخن نہ گفتہ باشد عیب و ہنر نہفتہ باشد۔
یہ جب بولتے ہیں تو موتی پروتے ہیں، مختصر میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ان میں جرأت اظہار بھی ہے، طاقت گفتار بھی۔ دھیمے اور نپے تلے الفاظ میں ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو مخالفین پر وزنی ہتھوڑے کے مانند گرتی ہے۔
جب انہیں وزارت اطلاعات سے فارغ کرکے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بے ضرر وزارت دی گئی تو مخالفین نے سمجھا۔
سرآمد روزگارے ایں فقیرے۔
ایک شخص جو سائنس کی ابجد سے بھی واقف آشنا نہیں ہے۔ وہ کیسے مشکل وزارت چلا پائے گا۔ اخباری کالموں اور ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ان کی خاصی بھد اُڑائی گئی۔لیکن کچھ عرصہ بعد ہی عوام کو محسوس ہوا کہ یہ فساد چودھری نہیں بلکہ ’’فرہاد چودھری‘‘ ہے۔ وہ تو جوئے شیر کھود کر مشہور ہوا۔ انہوں نے اس سے بھی زیادہ مشکل مسئلے کا مستقل حل نکال لیا ہے۔
گزشتہ ستر برس سے رویت حلال ایک مسئلہ بنا ہوا تھا، کئی بار قوم تقسیم ہوئی ۔ سب سے بڑا قضیہ تو اُس وقت کھڑا ہوا جب ایوب خان کے دور میں عید جمعہ کو آگئی۔ آمر کو بتایا گیا کہ ایک دن میں دو خطبے سربراہ مملکت کے لئے بھاری ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ رویت ہلال کمیٹی کو کہ کر عید ایک دن پہلے کروا لی گئی۔ اکثریت نے اس کو ذہنی طور پر نہیں نہ مانا۔ بھٹو کے دور میں بھی عید جمعہ کو آگئی۔ مولانا کوثر نیازی نے دن بدلنے کا مشورہ دیا۔
بھٹو بڑا کایاں نکلا۔ چہرے پر تشویش کے اثرات ظاہر کرتے ہوئے بولا،
مولانا آپ نے درست فرمایا ہے۔
سربراہ مملکت چوہدری فضل الٰہی نسبتاً بوڑھا ہو چکا ہے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ سربراہ حکومت پر اِس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
فواد چوہدری نے عید کا اعلان ایک دن پہلے کر کے رویت ہلال کمیٹی کے پر باندھ دیئے۔پھر اُن علاقوں کی نشاندہی کر کے جہاں چاند نے نظر آنا تھا اپنی بات میں مزید وزن پیداکردیا ۔ علمائے کرام سے چھیڑ چھاڑ یا ان کو معروضی حالات میں ناراض کر نا بہت دل گردے کا کام ہے۔ اس شخص نے کمال جرأت سے کام لیا ۔کسی قسم کی ہرزہ سرائی کی پرواہ نہیں کی ‘مفتی صاحب کے تندوتیز جملوں کا بھی نہایت ادب اور احترام سے جواب دیا۔ ویسے رویت ہلال کمیٹی سے بصد ادب و احترام پوچھا جاسکتا ہے۔
(1)رسالت مآب اور خلفائے راشدین کے زمانے میں چاند کس طرح دیکھا جاتا تھا ۔گو اسلامی سلطنت ،مصر ،شام، ایران، اور سپین تک پھیل چکی تھی مگر عید ہر بستی اپنی صوابدید اور رویت ہلال کے مطابق منائی جاتی تھیں ۔
(2)بالفرض یہ دلیل دی جائے کہ اس وقت سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو اب جبکہ سائنس ترقی کر گئی ہے اس پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔
(3)بالفرض 22کروڑ کے ملک میں سوآ دمی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے چاند دیکھا ہے تو کیا ان کی گواہی مؤثر ہے؟اگر ان پر اعتبار نہیں کیا جاتا تو کیا وہ اس کے مجاز نہیں کہ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو نہ مانیں؟
(4)اگر ملک میں دو عیدیں ہو جائیں تو اس سے کیا فرق پڑسکتا ؟کیا خدانخواستہ ملک کو نقصان پہنچے گا؟ اکثر دو ہی ہوتی تھیں۔ فواد چودھری نے کمیٹی کو توڑنے کا مشورہ دیا۔ شاید ایسا ممکن نہ ہو ! بالفرض ہو بھی جائے تو علمائے دین کی خدمت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ شریعت کورٹ کے ججوں کی تعداد بڑھا کر ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کو دگنا یا تین گنا کیا جاسکتا ہے۔ حکومت انہیں مذہبی امور کا مشیر مقرر کر سکتی ہے۔
ہر شعبے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس پر بوجھ بن جاتے ہیں فواد چودھری نے شعبہ صحافت میں یہ بوجھ ہلکا کیا ہے۔ اب تفصیل میں کیا جانا ہے !
باقی رہے شیخ رشید صاحب ! وہ اس وقت بلاشبہ ڈارلنگ آف دی میڈیا ہیں۔ لوگ ان کی باتیں سُن کر حِنط اُٹھاتے ہیں تلخ اور ترش باتوں کو بھی چٹ پٹا بنا دیتے ہیں ۔
دیروحرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
………………… (ختم شد)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024