منگل ‘13 ؍ ذوالحج 1441 ھ‘ 4؍ اگست 2020ء
عید کے بعدمزے مزے کے پکوان کھانے میں احتیاط کی ضرورت
عیدالاضحی کے 3 روز جن میں قربانی کی جاتی ہے۔ جانور ذبح ہوتے ہیں گزر گئے۔ بچے جو جانوروں سے مانوس ہوتے ہیں انکی اُداسی بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئی ہے۔ اب گھروںمیں فریجوں اور ڈیپ فریزروں میںلبالب قربانی کا گوشت ٹھونسا ہوا ہے ، جو چھلکنے کی حدتک بھرے ہوئے ہیں۔ آئندہ کئی ہفتے تک اس گوشت کو معدے میںاُتارنے کے لیے طرح طرح کے پکوان تیار ہوں گے۔ دوستوںرشتہ داروں کی دعوتیں ہوں گی۔ لوگ دل کھول کر گوشت پر بھوکے کوئوں اور چیلوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔ اس بسیار خوری کی وجہ سے لوگوں کی بڑی تعداد بدہضمی و دیگر بیماریوںکے سبب ہسپتالوں ، نجی کلینکوں میں علاج کرواتے نظر آئے گی۔ مگر کیا مجال ہے جو دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔ وہ قربانی کے گوشت سے پورا پورا نصاف کرتے نظر آئیںگے۔ البتہ اس بار قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کی بجائے اس کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوںکو ایک بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ ہے بجلی کی لوڈشیڈنگ جو پورے ملک میں ہو رہی ہے۔ نگوڑی بجلی کسی بیسوا کی طرح پلکیں جھپکاتی دیدے مٹکاتی چشم زدن میںکچھ اس طرح غائب ہو جاتی ہے کہ لوگ گھنٹوں اس کے عشوہ طرازیاں اور ناز نحرے اٹھانے کے لیے جھولیاںاٹھا اٹھا کر دعائیں مانگتے ہیں۔ موسم بھی گرم اور حبس آلودہ ہے۔ اس پر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گوشت کے جلد خراب ہونے کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اس لیے گوشت ذخیرہ کرنے والوںکو چاہئے کہ وہ گوشت خراب ہونے سے قبل ہی مستحق لوگوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دیں۔ ورنہ بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ…
٭٭٭٭٭
کراچی کو کچرے سے پاک کرنے کا کام فوج کے سپرد
جی ہاں اب یہی ایک حل رہ گیا تھا کراچی کو کچرا کنڈی بننے سے بچانے کا۔ ذرا سی طوفانی بارش نے کراچی کا سارا گند سیوریج کے پانی کے ساتھ سڑکوں اور گلیوں میں کچھ اس طرح تیرتا نظر آیا کہ لوگ خود اپنے شہر کی حالت پر شرمندہ ہونے لگے۔ خدا جانے سندھ حکومت اور شہر کی انتظامیہ ملازمین کی فوج ظفر موج کے ہونے کے باوجود شہر کو صاف کیوں نہیں رکھ پاتی۔ فنڈز نہیں پیسے نہیں کی باتیں اب پرانی ہوچکی ہیں۔ سیاسی مداخلت کے فسانے بھی پرانے ہو چکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا مال پانی سارے فنڈز بندر بانٹ کی نظر ہو جاتے ہیں۔ سب ’’اوتوں اوتوںکھائی جا ، وچوں رولا پائی جا‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جس کی وجہ سے کراچی پر کچرا کنڈی کی مستقل چھاپ لگ گئی ہے۔ جس شہر میں فراہمی آب کا مسئلہ سنگین ہو چکا ہے ، اسی کراچی میں نکاسی آب بھی ایک لاینحل مسئلہ بن چکا ہے۔ ان دو مسئلوں کا علاج اب تک دریافت نہیں ہو چکا جب سب ادارے ہاتھ اٹھا چکے تو فوج کو کراچی کو گندگی سے بچانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ حالانکہ یہ کام بھی نیب کے سپرد ہونا چاہئے کہ کراچی کو گندا ترین شہر بنانے والوںکو کیفر کردار تک پہنچائے۔ فوج صرف اس صورت میں ہی کراچی کا چہرہ نکھار سکتی ہے کہ اسے فری ہینڈ دیا جائے اور اس کی راہ میں رکاوٹیںنہ ڈالی جائیں جس طرح امن و امان کی حالت بہتر بنانے کے لیے رینجرزکو طلب کر کے بعد میں اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
کرونا کی شدت میں کمی، دفتری اور کاروباری اوقات کار میں نرمی
خدا خدا کرکے کرونا کی شدت میں کمی کے بعد حکومت نے سرکاری دفاتر کے اوقات کار بحال کرنے کے ساتھ کاروباری و تجارتی اوقات میں بھی نرمی کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک حالت مثالی نہیں ہے، خطرہ بدستور سروں پر منڈلا رہا ہے مگر پہلے جیسی حالت بہرحال نہیں رہی۔ حکومت کے مناسب احتیاطی تدابیر اور لاک ڈائون کی وجہ سے حالات زیادہ خراب ہونے سے محفوظ رہے ہیں۔ عوام کی بات ہی الگ ہے، وہ ہر چیز کو مذاق میں لینے کے عادی ہیں اگر عوام حکومتی اقدامات اور حفاظتی تدابیر پر عمل کرتے تو حالات زیادہ بہتر ہوسکتے تھے۔ وباء پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا، اس سے بچنے کیلئے علاج کے ساتھ ساتھ احتیاط بھی بہت ضروری ہے۔ اس کا اندازہ عوام کو ہو جانا چاہئے تاکہ آئندہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے محفوظ رہا جاسکے۔ اب یہ کسی سانحہ یا حادثے کے بعد احتیاط کی عادت نہیں بدلنا ہوگی۔ عقل مند وہی ہوتا ہے جو کسی سانحے یا حادثے سے قبل ہی محتاط ہو جائے۔ اب کاروباری اور دفتری سرگرمیاں بحال ہونے سے ہمارے ملک سے روٹھی رونق ایک بار پھر بحال ہونے لگے گی۔ روزگار کے ذرائع پیدا ہوں گے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ
زمین کی گود رنگ سے امنگ سے بھری رہے
خدا کرے یہ کہکشاں یونہی سجی رہے
کرونا کے دور میں جو نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ بھی جلد ہو جائے گا۔ بس ہمت، محنت اور یقین محکم کی ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭
جانوروں کی آلائشوں کی بدبو سے شہری پریشان
ضروری نہیں کہ ہر کام حکومت پر چھوڑا جائے، سارے سابقہ تجربات گواہ ہیں کہ ہماری حکومتیں عوام کی توقعات پر بہت کم پورا اترتی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں سارے ملک کی بات نہیں کرتے ، پنجاب کے بڑے شہروں کی حد تک صفائی کا نظام بہتر تھا۔ خاص طور پر بارشوں، سیلاب اور قربانی کے بعد آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام نہایت سرعت سے انجام پاتا تھا۔ نئی حکومت اور تبدیلی کے بعد یہ کام قدرے سست روی کا شکار نظر آتا ہے جس پر لوگ چیں بجیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لاہور اور دیگر شہروں میں جابجا آلائشوں کے انبار محکمہ صحت و صفائی کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ گرم حبس آلود موسم اور برسات نے حالات کے مزید بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بڑی سڑکوں کو جو وی آئی پی حضرات کی گزرگاہیں ہوتی ہیں، چھوڑیں۔ ان کے آس پاس جو جو علاقے، سڑکیں اور گلیاں ہیں وہاں کے کچرادان سراپا عبرت کدہ کا روپ دھار چکے ہیں۔ تعفن سے اردگرد کی فضا بھی مسموم ہو رہی ہے مگر اے سی والی کاروں میں شیشے بند کرکے گزرنے والوں کو شاید اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس لئے صوبائی حکومتیں اور محکمہ صفائی والے ذرا اپنی ذمہ داریوںکا احساس کریں اور عوام کو اس اذیت سے نجات دلانے کیلئے فوری اقدامات کریں۔
٭٭٭٭٭