پاکستان میں غریب کو روٹی ملتی ہے،حقدار طالب علم کو وظیفہ ملتا ہے۔ سیلاب میں ڈوبے افراد کو نئے گھر ملتے ہیں اور زلزلے سے تباہ شدہ بستیاںنئے سرے سے تعمیر ہوتی ہیں اور خشک صحرائوںمیں میٹھے پانی کے کنوئیں کھودے جاتے ہیں۔ گلی گلی اور شہر شہرفری ڈسپنسریوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے ۔شوکت خانم اور الشفا جیسے میگا ہسپتال بنے ہیں اور مزاروں پر کھانے کی دیگیں چڑھائی جاتی ہیں، دودھ کی سبیلیںلگتی ہیں اور نادار بچیوں کو جہیز کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے تو ا سکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں لوگ صدقہ خیرات اور زکوٰۃوعشر کی ادائیگی کا باقاعدگی سے اہتما م کرتے ہیں۔ میں رائیو نڈ روڈپر ایک نئے کینسر ہسپتال کے اجلاس میں شریک ہوا توا س کے اگلے مرحلے کے لئے چشم زدن میں پانچ کروڑ جمع ہو گئے۔امریکہ سے ا ٓئے ہوئے ایک فلاحی تنظیم کے سربراہ میاں مشتاق نے بھی دیکھا دیکھی پانچ لاکھ کا چیک دے دیا۔ ایک صاحب نے مریضوں کے لواحقین کے لئے مہمان خانہ کی تعمیر اور پہلے ایک سال کے کھانے کے اخراجات کے لئے ایک کروڑ کا اعلان کر دیابلکہ اسی تقریب میںا س کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا، شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ تو کمال ہی ہو گیااور پھر لوگوںنے عمران خان کو نمل یونیورسٹی کو چندہ دیا ۔ اخوت یونیورسٹی کو پچاس کروڑ درکار تھے تو عوام نے ڈاکٹر امجد ثاقب کی دیانت پر اعتماد کرتے ہوئے یہ رقم ان پر نچھاور کر د ی۔
ملک بھر میں ایدھی کی خیراتی سر گرمیوں کا جال بچھا ہوا ہے،چھیپہ کی ایمبولینسیں بھی نظرآتی ہیں جو کسی لاش یا زخمی کو لاوارث نہیں رہنے دیتیں۔ زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جاتاہے اور مرنے والوں کی تدفین کاانتظام کیا جاتا ہے۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے اور دو ہزار دس کے ملک بھر میںسیلاب سے پریشان حال لوگوں کی مدد کے لئے بھی خلق خدا مڈ پڑی تھی۔ روہنگیا پر آفت آئی توبنگلہ دیش تک میںامداد پہنچائی گئی اور ترکی میں شامی مہاجرین کے کیمپ لگے تو بھی ہماری فلاحی تنظیموں نے سرگرم کردار ا دا کیا۔ خود ترکی والے حیران تھے۔
حکومت پاکستان چاہے بھی کہ یہ سارے کام خود کرلے لیکن نہ اس کے پاس فنڈ ہیں اور نہ رضاکاروں کا لشکر۔ سرکاری افسراول تو حرکت ہی نہیں کرتے اور کھ مجبوری میں کرناپڑ جائے تو آدھے سے زیادہ فنڈ خورد برد کر لیتے ہیں۔ ہم تو غیر ملکی امدادبھی بازاروںمیں بیچ ڈالتے ہیں اور مستحقین تک ان کی خبر بھی نہیں پہنچنے دیتے۔
ان حالات میں اگر حکومت پاکستان اورچاروں صوبائی حکومتیں عالمی دبائو پر صدقہ خیرات پر پابندی لگا دیں گی یا خیراتی تنظیموں سے پوچھا جائے گا کہ انہیں پیسے کہاں سے ملے تو لازمی طور پر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہو گا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہماری معیشت ڈاکو منٹِڈ نہیں۔ عام آدمی تو حساب رکھ ہی نہیں سکتا اور جوسرمایہ دار ہیں وہ دہرے کھاتے رکھتے ہیں۔ اب اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ وہ جو فنڈنگ کریں اس کی کمائی کا حساب یعنی منی ٹریل بھی دیں تو اسکا مطلب ہے کہ کسی بھوکے اورفاقہ کش کو دو لقمے کھانا نہیں ملے گا ، درگاہوں پر کوئی بھی دیگیں نہیں چڑھائے گا اور زلزلے اور سیلاب کی آفت میں متاثرین بے یارو مدد گار پڑے رہیں گے۔ ہمارے ہاں تو ستر لاکھ افغان مہاجرین کوپچاس برسوں سے پالا جا رہا ہے اور سوات اور فاٹاکے مہاجرین کی دیکھ بھال کے تمام انتظامات بھی فلاحی تنظیموں نے انجام دیئے۔ وزیر اعظم نے کورونا لاک ڈائون پالیسی کی تشکیل میں کہا تھا کہ سخت کرفیو کی صورت میں لوگ کورونا سے نہیں زیادہ تر فاقے سے مر جائیں گے ،اب انہیں اس نکتے پر غور کرنا چاہئے کہ صدقے اور خیرات کی منی ٹریل کا حساب مانگا گیا تو فلاحی ا داروںکے دروازوں پر تالے لگ جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کویاد ہو گاکہ صرف چار ماہ قبل ایف بی آرکے افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے لوگ اندرون ملک اور بیرون ملک مجھے سب سے زیادہ چندہ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شوکت خانم ہسپتال کی چیریٹی ہے۔لوگوں کو یقین ہے کہ یہ پیسہ صحیح خرچ ہوگا۔
اس فلسفے کے بر عکس اب مختلف حکومتیں چیریٹی آرڈیننس کو نافذ کر کے فلاحی اداروں کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ 15 اگست تک اپنی رجسٹریشن کروائیں ورنہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی اور انہیں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔ بھلا ہو پنجاب کی عدالت عالیہ کا جس کے فاضل جج شاہد کریم نے 27 جولائی 2020ء کو چیرٹیز ایکٹ کے خلاف درخواست پر 15 اگست تک عمل درآمد روک دیا ہے۔ خدمت خلق اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے والی ہزاروں نیک نام این جی اوز اور ، مفت تعلیم دینے والے تعلیمی اداروں نے اس پہ کم از کم 15 اگست تک تو سکھ کا سانس لیا ہے۔صدقات اور زکوٰۃ دی جاتی ہے اس طرح کہ ایک ہاتھ سے دیں اور دوسرے کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اب چیرٹیز ایکٹ کے تحت عطیہ دینے والوں کا سارا کچا چٹھا بتایا جائے گا۔ ڈونر کون ہے؟ اس نے زکوٰۃ یا ڈونیشن کیوں دیا؟ اس کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ وہ ٹیکس دہندہ بھی ہے؟، خیراتی اداروں کی پہلے ہی رجسٹریشن ہوتی ہے۔ ان کا سالانہ آڈٹ ہوتا ہے۔ تو چیرٹی ایکٹ کی در فنطنی کیوں۔
قرآن میں صدقہ خیرات کا بار بار حکم دیا گیا ہے، اللہ خود اپنے لئے قرض حسنہ مانگتا ہے۔ اور ا سکی صورت صدقہ خیرات ہی ہے ۔ دین کے احکامات معطل نہیں کئے جا سکتے۔ دنیا میں کرونا نے ثابت کر دیا کہ ہر ملک کانظام معیشت تو تباہ ہو چکا۔ اب مذہبی نظام معیشت بھی نشانے پر ہے جو بھوکی ننگی اور بیمار مخلوق خدا کاا ٓخری اور واحد سہارا ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024