آئی ایس پی آر نے پانچ اگست کی مناسبت سے کشمیریوں کی جدوجہد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نغمہ ریلیز کیا ہے۔ اس نغمے میں کشمیریوں کی جدوجہد کو دکھایا گیا ہے وہاں ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ نغمے کے ذریعے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نریندرا مودی کی حکومت کشمیریوں پر کیسے ظلم و ستم ڈھا رہی ہے۔ ننھے منے بچوں، خواتین اور بزرگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ گذشتہ برس پانچ اگست کو بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ پانچ اگست سے آج تک کشمیری کرفیو اور لاک ڈاؤن میں زندگی گذار رہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے نغمہ جاری کیے جانے کے بعد بھارت کو اس پر تنقید یا برا منانے کا موقع نہیں ملا ہمارے اپنے ہموطنوں نے ہی اس پر جس انداز میں تنقید کی ہے وہ حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ کشمیریوں کے لیے ہم اپنی ہی فوج کی کوششوں پر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے تنقید کر رہے ہیں۔ یہ خالصتاً سیاسی تنقید ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے ماننے والے اپنے رہنماؤں کے منفی سیاسی طرز عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ملکی دفاع کے سب سے اہم ادارے کے اقدامات پر منفی باتیں کر کے کسی کا کیا نقصان کر رہے ہیں وہ صرف اپنی آنے والی نسلوں کو ملکی دفاع سے نفرت کا پیغام دے رہے ہیں۔ فوج ہماری حفاظت کی ضامن ہے، فوج ہمارے پر امن مستقبل کی ضمانت ہے، فوج ہماری آزادی کی ضامن ہے۔ افواج پاکستان کے جوانوں نے آج تک ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بہترین سال سخت موسموں کو برداشت کرتے ہوئے گذار دیتے ہیں۔ ہماری نسلوں کے تحفظ کے لیے سخت حالات میں زندگی کے بہترین سال سرحدوں، میدانوں میں گذار دیتے ہیں۔ ہم سو رہے ہوتے ہیں اور وہ جاگ رہے ہوتے ہیں ہم خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنا فرض ادا کر رہے ہوتے ہیں، ہم ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہوتے ہیں اور انہوں نے مورچے سنبھالے ہوتے ہیں، ہم پارٹیاں کر رہے ہوتے ہیں اور وہ ڈیوٹی پر جانے کے لیے تیار ہو رہے ہوتے ہیں، ہم سینما دیکھنے، مالز میں وقت گذارنے، شاپنگ کرنے اور دوستوں کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر جاتے ہیں اور فوجی بھائی سخت موسموں میں ہماری حفاظت کو یقینی بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ جن گولیوں سے بچ رہے ہوتے ہیں وہ گولیاں اپنے سینوں پر کھاتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اور فوجی بھائی ہر وقت جان اپنی ہتھیلی پر رکھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اہلخانہ کے ساتھ وقت گذارتے ہیں، اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اپنے والدین کی محبت وصول کر رہے ہوتے ہیں، صبح شام انہیں دیکھتے ہیں لیکن فوجی بھائی برسوں اپنوں سے دور رہتے ہیں، کبھی اس شہر کبھی اس شہر، کبھی اس صوبے کبھی اس صوبے اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی ہجرت ہی کرتے رہتے ہیں۔ کسی کا ایک ہی بیٹا، ایک ہی بھائی ہو، کبھی کسی کی نئی نئی شادی ہو، کبھی کسی نے بہن کی شادی کی تیاریاں کر رکھی ہوتی ہیں اور اسکی شہادت کی خبر ملتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ ان کی بھی زندگی ہے۔ وہ ہمارے لیے سختیاں اور اذیتیں برداشت کرتے ہیں، زندگیاں لٹا دیتے ہیں اور ہم جواب میں ان پر تنقید کرتے ہیں تو ہم کون سا نیک کام کر رہے ہیں ملک کی کون سی خدمت کر رہے ہوتے ہیں۔ جو ہمارے محافظ ہیں ہمیں ان کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی حوصلہ شکنی تو نہ کریں۔
ملک کی چند سیاسی جماعتوں نے جہاں ملکی اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے وہیں عوام میں ملک کے سب سے بڑے ادارے کے حوالے سے نفرت پھیلانے کے لیے جو کام کیا ہے یہ اس دھرتی کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کیا ہے۔ سیاسی مقاصد، ذاتی مفادات اور بیرونی دوستوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے ہی ملک کے دفاع کے ضامن اداروں کو متنازع بنانے کی مہم شروع کر رکھی ہے یہ ناقابل معافی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی جماعت کی قیادت اور ان کے کارکنوں کو اپنے طرز عمل پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ اپنی ہی فوج پر الزام دھرا جائے، اس کے ضروری اقدامات پر حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر ضروری تنقید کی جائے۔ یہ کیسا دوہرا معیار ہے کہ ہم آج بھی پینسٹھ کے جنگی ترانوں کو یاد کرتے ہیں اور کشمیر پر آئی ایس پی آر کی کاوشوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی منظم مہم اور حقائق کو بہترین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی بیرونی دنیا میں پذیرائی ہوئی ہے جب کہ دوسری طرف اپنی سیاسی جماعتوں کے لوگ اپنے ہی محافظوں سے نالاں ہیں جبکہ ان سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت گوڈے گوڈے کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہے اور اس قیادت کی کرپشن اور دوستیوں کے تانے بانے ملک دشمنوں کے ساتھ جڑتے ہیں۔ ان دوست نما دشمنوں نے اپنی کرپشن کو چھپانے، اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کے لیے قومی سلامتی کو ہدف بنایا ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر افواج پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی غیر مشروط حمایت کی ہے۔ ہر موقع پر کشمیریوں کے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا، بھارتی فوج کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے، کشمیر کو اپنی شہہ رگ اور کشمیریوں کو اپنے جسم کا حصہ سمجھ کر بات کی ہے۔ افواج پاکستان کی طرف سے ہمیشہ یہ پیغام گیا ہے کہ کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ہماری فوج کشمیریوں کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ہمیشہ کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے کردار کی تعریف بھی ضروری ہے۔
سیاسی قیادت نے بھی اپنا کام بخوبی ادا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان نے بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا انہوں نے دنیا کے سامنے بھارتی افواج کی دہشت گردی کی کارروائیوں کو دنیا کے سامنے رکھا، کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر مصلحت کے بغیر بات کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کیا۔ وزارت خارجہ بھی متحرک رہی، اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ دوبارہ اٹھایا گیا، یورپی یونین کی سطح پر کشمیریوں کے حقوق کی بات ہوئی یہ اقدامات کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور ان کے مسائل دنیا کے سامنے پیش کرنے کے کیے اٹھائے گئے تھے۔ ترکی اور ملائشیا نے اعلانیہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ امت مسلمہ کو بھی اس حوالے سے ضرور جاگنا ہو گا۔ کشمیریوں کا خون اتنا سستا نہیں کہ کاروباری مفادات کے لیے خاموشی اختیار کی جائے۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر آواز بلند کرنی چاہیے۔
ہم نے گذشتہ برس پانچ اگست کے بعد سے مسلسل مسئلہ کشمیر کے حوالے سے لکھا، اس دوران روزانہ ہونے والے واقعات دل چیرنے کے لیے کافی ہیں۔ کشمیریوں کے اپنے گھر جیل بن گئے، مذہبی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی، عاشورہ کے جلوسوں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج ہوا، انٹرنیٹ بند، موبائل فون بند، میڈیا ہر پابندیاں،معمول کی زندگی تباہ کر دی گئی، سیاسی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا، حتی کہ بھارت نواز سیاست دانوں کو بھی پانچ اگست کے اقدامات کے خلاف آواز بلند کرنے پر قید کر دیا گیا۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی کشمیر میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ایسے واقعات لکھتے لکھتے ایک برس ہونے کو آیا ہے عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں کو ہوش نہیں آئی۔
حکومت پاکستان نے بھی پانچ اگست کو یوم استحصال کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ کشمیر ہائی وے کا نام سرینگر ہائی وے رکھتے ہوئے اگلی منزل سرینگر کو قرار دیا ہے۔ پانچ اگست کو خاموشی بھی اختیار کی جائے گی۔ پانچ اگست کو تمام سفارت خانوں میں بھی یوم استحصال کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ اس دن بھارت کے مظالم کو ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے بینقاب کرنا چاہیے۔
یہ تمام وہ کوششیں ہیں جو مہذب دنیا کو یاد دلانے کے لیے ہیں کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کا خواہاں ہے۔ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتا ہے اور کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔ اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت کبھی اس مسئلے کے پر امن حل کی ظرف نہیں آئے گا کیونکہ یہ مسئلہ صرف مقبوضہ وادی تک محدود نہیں ہے یہ کفر و اسلام کی جنگ ہے۔ کافروں نے مسلمانوں پر زندگی تنگ کر رکھی ہے اور وہ ان پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔ یہ ظلم کلمے کی بنیاد پر ہیں۔ اس لیے ہم جو مرضی کر لیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آخر کار ہمیں جنگ کرنا ہو گی۔ عالمی طاقتیں کبھی ہوش میں نہیں آئیں گی نہ وہ پاکستان کا ساتھ دیں گی یوں یہ جنگ پاکستان کو اکیلے ہی لڑنا پڑے گی۔ ہمیں خود کو سب سے اہم مرحلے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہو گا۔ وہ نام نہاد لوگ جنہیں انسانیت کا درد کھاتا ہے انہیں کشمیر میں شہید ہونے والے جوانوں کے چہرے، اجتماعی زیادتی اور بچوں پر ہونے والے مظالم پر انسانیت یاد کیوں نہیں آتی۔
پانچ اگست کو پاکستان کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے یوم استحصال منا رہا ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ عین اسی دن انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز کا آغاز کر رہا ہے۔ اس سے بڑی بے حسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہمارے کرکٹ بورڈ کو اتنی بھی خبر نہیں ہے کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کے عالمی دن کے موقع پر کرکٹ سیریز شروع کر رہے ہیں۔ یہ باہمی سیریز ہے اس میں شیڈول بھی باہمی رضامندی سے طے پاتے ہیں کیا پاکستان کرکٹ بورڈ چھ اگست سے سیریز کا آغاز نہیں کر سکتا تھا یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔ وزیراعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ چیئرمین کرکٹ بورڈ احسان مانی اور ان کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان سے ضرور پوچھیں کہ اتنی بڑی غلطی کیوں اور کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے موقع پر کرکٹ سیریز کا آغاز کیوں کیا گیا ہے یا پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے کھلاڑیوں کو سیاہ پٹیاں باندھ کر میدان میں اتارے اگر بلیک لائیوز میٹرز کا ٹرینڈ چل سکتا ہے تو کشمیری لائیوز میٹرز کا ٹرینڈ کیوں نہیں چل سکتا۔ ایسے کاموں کے لیے حب الوطنی جرات و ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام نہ کرنے کے بہانے تراشنے کے بجائے اس کام کو کرنے کے راستے نکالنے پر توانائیاں صرف کی جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024