پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ سے متعلق سینیٹر حاصل بزنجو کے تبصرے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد امیدوار حاصل بزنجو نے جمعرات کو موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک ویڈیو میں سینیٹر حاصل بزنجو کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ "میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک کھیل تھا اگر آج ہارے ہیں تو اس کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہے۔"پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے دنیا کی طاقتیں کیوں کانپتی ہیں۔آئی ایس آئی کی کہانی ایک افغان کمانڈر کی زبانی پڑھی تھی۔
1999ء کی بات ہے ایک ریٹائرڈ افغانی کمانڈر اسلامیہ کالج پشاور کے مرحوم پرنسپل سید مسرت شاہ صاحب کے گھر آتا تھا تاکہ جرمن سفارتخانے سے افغانستان میں ایک پروجیکٹ کیلئے سفارش کروائی جائے۔ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے انہی دنوں مارشل لاء لگایا تھا۔ تو اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی۔باتوں باتوں میں ISI کے کردار کے بارے میں پوچھا تو افغان کمانڈر نے کہا کہ" جب تک ISI ہوگی اس وقت تک کوئی پاکستان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا" اور پھر ایک واقعہ سنایاکہ
1979ء میں جب روس نے افغانستان پر چڑھائی کی تو ہم نے 22 روسی فوجی گرفتار کئے جو کہ 2 ماہ تک میرے قبضے میں تھے۔ پھر کابل میں حالات خراب ہو گئے تو مجھے افغان حکومت کیطرف سے حکم ملا کہ ان کو پشاور پہنچا دو۔۔۔
میں 22 روسی فوجیوں کو لیکر علی الصبح پشاور آرمی سٹیڈیم کے سامنے واقع ISI کے ہیڈ کوارٹر پہنچا۔اور پاک آرمی کے حکام کے حوالے کیا۔
میرے سامنے ایک پاکستانی میجر نے انکو دو قطاروں میں کھڑا کر دیا۔ اور مجھے کہا کہ اس میں تو 11 آفیسرز ہیں۔ میں نے کہا جی کوئی آفیسر نہیں ہے۔ سارے سپاہی ہیں جو کہ 2 ماہ تک میرے custody میں رہے ہیں۔۔۔
اس نے کہا ٹھیک ہے اور لاٹھیاں کا ایک بنڈل منگوا لیا۔
لاٹھی نکال کر ایک ایک کے اوپر رکھتے رہے اور تیسرے سپاہی کو باہر نکال کر پوچھا۔ بتاؤ کونسے رینک میں ہو؟
اس نے کہا، سپاہی ہوں۔ جب پاکستانی میجر نے دو تین زبردست سٹیک مار دئیے تو سپاہی چیخنے لگا کہ لیفٹننٹ کرنل ہوں۔۔۔
اس پر پاکستانی میجر نے کہا جاو اپنے 10 اور آفیسرز کو بھی باہر نکال دو۔ اس نے 10 اور آفیسرز کو بھی باھر نکال دیا۔ میں حیران و پریشان یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ کہ آخر یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ؟؟؟
آخر میں پاکستانی میجر نے پینٹ جیب سے کاغذ نکال کر کہاجب یہ لوگ افغان بارڈر کراس کر رہے تھے تو ہمیں اطلاع ملی تھی کہ اس بٹالین میں اتنے آفیسرز ہیں۔۔۔
اب آپ اندازہ لگا لیں کہ 2 ماہ تک افغانستان میں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ ان میں اتنے آفیسرز ہیں؟ روس کے اپنے سپاہیوں کو پتہ نہیں تھا کہ ہمارے درمیان آفیسرز موجود ہیں اور پاکستانی فوج کو پہلے سے پتہ تھا۔ اور یہ کارنامہ ISI کا تھا۔۔۔
یہ دراصل روسی فوج نے اپنے ہی آفیسرز کو سپاہیوں کی روپ میں بھجوائے تھے تاکہ اپنی فوج کی سپاہیوں پر نظر رکھے تاکہ کوئی مجاہدین سے پیسے وغیرہ نہ لیں۔۔۔
اس واقع سے ISI کے کردار اور اپنے پیشہ ورانہ مہارت کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے۔ اور یہی وجہ تھی کہ حالیہ سالوں میں افغانستان کے اندر دنیا کی 45 طاقتور ایجنسیوں کیساتھ تن تنہا برسرپیکار رہی اور پاکستانی سرحدات کی حفاظت کو یقینی بنایا ورنہ امریکہ صرف افغانستان کے پیچھے تو نہیں آیا تھا۔ ان کے عزائم تو کچھ اور تھے۔۔۔ بے شک پاکستانی قوم کو اپنے سیکیورٹی اداروں پر اعتماد ہے۔1948ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کیلئے تمام پاکستانیوں کے دلوں میں انتہائی احترام پایا جاتا ہے۔اس ادارے کی کارکردگی پر پاکستانی ہمیشہ نازاں رہے ہیں۔اگرچہ افغانستان پر سویت یونین کی چڑھائی کے موقع پر پاکستانی ردعمل پر پاکستانی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم اگر اس وقت کے نتائج کو مدنظر رکھا جائے جو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل اور اصل مقصد تھا تو پتہ چلتا ہے کہ آئی ایس آئی کی کاوشوں سے پاکستان اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب رہا۔اس وقت پاکستان کا بنیادی مقصد پاکستان سے ملحقہ افغانستان سے سویت فوجوں کا انخلاتھا ،یہ آئی ایس آئی ہی تھی جس نے افغانیوں کو متحد کیا، انہیں تربیت فراہم کی تاکہ وہ روسی قبضے سے جان چھڑا سکیں۔اور آئی ایس آئی اس مقصد میں کامیاب رہی کیونکہ اس نے روس کو افغانستان کا قبضہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔بعدازاں آئی ایس آئی کی کوششوں کو زنگ آلود کرنے کیلئے انہیں دہشتگردی کی وجہ قرار دینے کی کوشش کی گئی۔یاد رہے کہ حزبِ اختلاف کی رہبر کمیٹی نے نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ بیچاروں کے ساتھ ہینڈ ہو گیا۔ چودہ ووٹوں کا ضمیر نیلام ہو گیا اور حاصل بزنجو کی کامیابی کا خواب مٹی میں مل گیا۔ ناکامی اور مایوسی کا الزام آئی ایس آئی پر ڈال دیا۔ بزنجو کو اس بے بنیاد الزام سے کیا حاصل ہوا ؟ بجز شرمندگی کے !
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024