شکاگو کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ اُردو زبان پر تحقیق کرنے والے ایک عالم کا انگریزی زبان میں چھپنے والے اخبار کے سنڈے ایڈیشن کے لئے ہوئے انٹرویو کا تذکرہ اس کالم میں ہوا تو وجہ اس کی ن -م راشد تھے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ’’ہدایت نامہ شاعری‘‘ کے تحت لکھنے والوں کے ہجوم سے دانستہ طورپر کٹے اس شاعر کی نظمیں شائع ہوئیں تو لوگوں نے ان کا مذاق اُڑایا۔ پطرس بخاری اگر ان کے پہلے شعری مجموعے کا دیباچہ نہ لکھتے تو شاید راشد کو شاعری کو خدا حافظ کہناپڑجاتا۔
راشد کا مسئلہ فقط اتنا ہی نہیں تھا کہ موصوف فاعلن فاعلان فاعلن کے پہاڑوں پر مبنی بحروں کے ذریعے غزلیں نہیں کہتے تھے۔ گل وبلبل،دربان اور قاصد وغیرہ توخیرکبھی ان کا موضوع ہی نہیں تھے۔ غزل کی بجائے نظم لکھنا ان دنوں ادبی حوالوں سے جائز بھی تسلیم کیا جاچکا تھا۔ انگریزی حاکموں کے پسندیدہ شاعروں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے الطاف حسین حالیؔ اور محمد حسین آزادؔجیسے نابغوں نے بھی ’’نیچرل شاعری‘‘ لکھنا اور اس کا دفاع کرنا شروع کردیا تھا۔ مولوی مدن والی بات مگر بن نہ پائی۔ نظم کو پذیرائی ملی تو درحقیقت اقبالؔ کی وجہ سے جنہیں ان دنوں ہم نے محض ایک ’’مفکر‘‘ بنارکھا ہے۔ یہ تسلیم کئے بغیر کہ وہ ایک بے پناہ شاعر بھی تھے۔
ان کی شاعری کی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایران-جہاں کے لوگ اپنی فارسی پر بہت نازاں ہیں اور اس ضمن میں ’’زبان کی صحت‘‘ کے حوالے سے مولانا روم کی مشہور زمانہ مسنوی کو بھی ’’مستند فارسی‘‘ نہیں مانتے -’’اقبال لہوری‘‘ کا بہت چرچہ ہے۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے ان کے کلام کو دینِ اسلام کے بنیادی ارکان کو ایک نئی نگاہ سے دیکھنے کے لئے استعمال کیا۔ اس ضمن میں سب سے چونکا دینے والے وہ مضامین تھے جو انہوں نے فریضہ حج کی بابت لکھے اور اس کے ذریعے اصرار کیا کہ ’’حج‘‘ درحقیقت مسلمانوں کو ’’سعئی مسلسل‘‘ پر اُکساتا ہے۔ رنگ ونسل کی تمیز مٹاکر سب کو ایک جیسا احرام باندھ کر کعبے کے طواف پر مجبور کرتا ہے۔حج کی ریاضت کے اختتام پر ’’قربانی‘‘ ہوتی ہے جو محض کسی جانور کو ذبح کرنے کا نام ہی نہیں۔ ’’قربانی‘‘ ایک رویہ ہے جو آپ کے دل میں ہروقت موجود رہنا چاہیے تاکہ آمروں کی صورت نازل ہوئے فرعون ہم پر اپنا تسلط قائم نہ کرسکیں۔
’’اقبال لہوری‘‘ کا ذکرکرتے ہوئے اس بات کو بھی یاد دلانا ہوگا کہ ایران کے موجودہ روحانی رہ نما نے بھی ،جنہیں ایرانی آئین نے بے پناہ سیاسی اختیارات فراہم کررکھے ہیں، ہمارے اقبال پر ایک سے زیادہ تحقیقی مضامین لکھ رکھے ہیں۔ کاش اقبالؔ کا اپنے تئیں دیوانہ بنا کوئی پاکستانی ان مضامین کو اکٹھا کرکے ترجمہ کرے اور اسے ایک کتاب کی صورت عطا کرے۔ اس کام میں مگر محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور بڑھک بازی کی عادی ہماری قوم کو محنت ہی کی عادت نہیں۔کسی اور کے صدیوں پہلے کئے کام پر پھنے خانی کے دعوے کرنے کی لت میں مبتلا رہتے ہیں۔
اس کالم پر ہی غور کرلیجئے۔ بات شروع ن-م راشد سے کی تھی۔ بہک اقبالؔ کی طرف گیا۔ وجہ اس کی بنے ڈاکٹر علی شریعتی اور جو بات کہنے کو میں نے راشد کا حوالہ دیا تھا اس کی طرف اتنے لفظ لکھنے کے باوجود ابھی تک نہیں آپایا۔ ایسے منتشر ذہن کتابیں نہیں لکھ سکتے۔
راشد کا ذکر میں نے کیا بھی صرف اس لئے کہ اس کی ایک نظم کا حوالے دینے کے بعد فوراََ مجھے خیبرپختونخواہ کی حکومت میں موجود گروہ بندی کا ذکر کرنا تھا۔ اس گروہ بندی کے ذکر کے بعد سوال یہ اٹھانا تھا کہ کیا وہاں کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی قائم علی شاہ کی طرح ’’اچھی حکومت‘‘ قائم کرنے کے نام پر قربان کردئیے جائیں گے۔ ان کی قربانی اگر یقینی نظر آئے تو وہاں کا ممکنہ مراد علی شاہ کون ہوسکتا ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد اصل خواہش یہ تھی کہ عمران خان کے طرزِ سیاست کوز یر بحث لایا جائے۔ کالم اس ترتیب کے ساتھ مگر ہرگز آگے نہیں بڑھ پایا جو میں نے کل رات سے اپنے ذہن میں سوچ رکھی تھی۔
قلم اٹھایا توخیال کا گھوڑا بے لگام ہوگیا۔ اِدھر اُدھر منہ مارنا شروع ہوگیا۔ اسے گرفت میں لانے کی کوشش میں یہ کالم نگار تھک گیا ہے۔ کالم کے لئے جگہ ویسے بھی محدود ہوتی ہے۔ جو لکھ ڈالا اسے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لئے غالبؔ جیسی ہنر مندانہ سفاکی درکار ہوتی ہے۔ اپنے ہنر میں یکتا نہ ہونے کے غم میںمبتلا یہ شاعر درحقیقت بہت ہنر مند بھی تھا۔ فارسی اس نے بچپن سے ایران سے آگرہ آئے ایک اہل زبان سے بڑی لگن کے ساتھ سیکھ رکھی تھی۔ اسی باعث غالبؔاپنے زمانے میں ’’استاد‘‘ گردانے فارسی میں لکھنے والوں کا تمسخر اُڑاتا رہا۔ بات محض مذاق اُڑانے تک محدود نہ رہی’’قاطع برہان‘‘ جیسی کتاب بھی لکھ ڈالی۔ اس کتاب میں صرف ونحو کے اصولوں کو بنیاد بناکر ثابت کیا کہ ان کے دور میں مشہور ہوئے کئی ’’فارسی‘‘ شاعر درحقیقت ’’غلط زبان‘‘ لکھ رہے ہیں۔ بجائے اس پر شرمندہ ہونے کے غرور وتکبر سے واہ واہ کے مزے لوٹتے ہیں۔
غالبؔ کی طرف بہک جانے سے مگر میں نے خیال کے گھوڑے کو لگام باندھ کر روک لیا ہے۔ن-م راشد کا ذکر کرنا تھا ان کی ایک نظم کا حوالہ دینے کے لئے۔ عنوان اس نظم کا ہے’’اندھا کباڑی‘‘۔ کباڑی جیسا کہ آپ جانتے ہیں گھروں سے کوڑا کرکٹ جان کر پھینکی چیزوں کو اکٹھاکرکے بازار میں بیچنے آجاتا ہے۔گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اسے صدائیں لگانا پڑتی ہیں۔
ن-م راشد کا کباڑی بھی صدالگاتا ہے:’’خواب لے لو خواب-‘‘اگرچہ یہ صدا لگاتے ہوئے دل ہی دل میں وہ یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ ’’خواب گر میں بھی نہیں۔صورت گرِثانی ہوں بس-ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں‘‘
اکتوبر2011میں لاہور میں ایک شاندار جلسہ کرکے عمران خان نے اس قوم کے نوجوانوں کو ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے خواب ہی تو دکھائے تھے۔ بڑے جنون کے ساتھ یہ نوجوان اس خواب کے خریدار بن گئے۔ محض ان ’’خریداروں‘‘ پر انحصار کرنے کے بجائے عمران خان نے Electcablesکے نام پر دیگر جماعتوں کی جانب سے ٹھکرائے لوگوں کو اکٹھاکرنا شروع کردیا۔ ن -م راشد کی ’’معیشت کا سہارا‘‘خواب تھے۔ عمران خان کی سیاست کا سہارا خواب ہیں۔ مگر نظم کے مطابق ’’شام ہوجاتی ہے۔میں پھر سے لگاتا ہوا صدا-مفت لے لو مفت-یہ سونے کے خواب-‘‘خواب مگر پھر نہیں بک جاتے۔’’مفت‘‘ سن کر بلکہ ’’اور ڈر جاتے ہیں لوگ۔اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ-‘‘ممکنہ خریدار دل ہی دل میں کہنا شروع ہوجاتے ہیں:دیکھنا یہ ’’مفت‘‘ کہتا ہے۔ کوئی دھوکا نہ ہو۔ ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو؟گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں یا پگھل جائیں یہ خواب؟بھک سے اُڑجائیں کہیں-یا ہم پر کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب-جی نہیں کس کام کے-ایسے کباڑی کے یہ خواب…‘‘
نظم کا یہ حصہ نقل کرنے کے بعد اس کی تشریح کے لئے کچھ باتیں کھل کر لکھنا ہوں گی۔ وہ لکھ دوں تو عمران خان کے انٹرنیٹ مجاہدجان کا عذاب بن جائیں گے اور گزشتہ دو دنوں سے پاکستان چھوڑ کر ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھانے کے بعد کینیڈا کے شہری بن کر پاکستان آئے’’انقلاب فروش‘‘ نے پہلے ہی میرا جینا دو بھر کررکھا ہے۔ تھک گیا ہوں۔ آخر کو انسان ہوں۔ پتھر نہیں ہوں میں۔
خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔
Apr 16, 2024