اسلام آباد (عترت جعفری) نئے سال کے بجٹ میں ملک کے ٹیرف کے نظام پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ٹیرف کی مختلف سلیبس کے ریٹ میں کمی کے ساتھ ساتھ اوسط ٹیرف میں کمی لائی جائے گی۔ مرحلہ وار اسے اوسط 6 فیصد تک لایا جائے گا، آئی ایم ایف پہلے ہی پاکستان سے مطالبہ کر چکا ہے کہ پاکستان کے ٹیرف پر نظر ثانی کی جائے اور ملک کی درآمد اور برآمد دونوں کو آسان بنایا جائے۔ امریکہ کی انتظامیہ کی طرف سے ٹیرف کے حوالے سے اقدامات اور آئی ایم ایف کے مطالبات کے پیش نظر وزارتوں میں پہلے ہی سے کام شروع کیا جا چکا تھا، امریکہ کی طرف سے پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف کے نفاذ کے بعد یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہے کہ اس سے پاکستان کے لیے امریکی مارکیٹ میں کیا مشکلات پیدا ہوں گی، اس حوالے سے سرکاری ذرائع اور صنعت کے نمائندوں اور امریکہ کی طرف سے ٹیرف کے نفاذ کے جواز کے طور پر جاری کی جانے والی دستاویز کے مطالعہ سے جو حقائق ابھر کے سامنے آتے ہیں ان کے مطابق پاکستان کے لیے بجٹ ایک ایسا موقع ہے جس میں وہ امریکی اقدامات کے اثرات سے نکلنے کے لیے حکمت عملی کو تیار کر سکتا ہے جیسا کہ اس کا ذکر گزشتہ روز وزیراعظم کی کاروباری برادری کے ساتھ ملاقات کے دوران حکومت کی جانب سے عندیہ دیا گیا ہے اس معاملے کو ہینڈل کیا جائے گا، جب پاکستان کے ممتاز ایکسپورٹر اور یو بی جی کہ پیٹرن ان چیف ایس ایم تنویر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ امریکہ سے جو پاکستان کے لیے درآمدات آتی ہیں ان میں زیادہ تر بھاری مشینری کاٹن اور انجینئرنگ کی اشیاء شامل ہے جبکہ پاکستان سے امریکہ کے لیے برآمدات چھ ارب ڈالر سے زائد ہیں، اگر پاکستان اپنے ٹیرف کو کم کر لے جیسا کہ حکومت کی جانب سے عندیہ بھی ہے تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے جیسے ہی ہم اپنا ٹرف کم کریں گے امریکی ٹیرف میں بھی کمی آ جائے گی، بھارت 26 فیصد ٹیرف لگا ہے ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے ٹیرف کو نیچے لانا چاہیے اگر پہلے مرحلے پر اسے زیادہ سے زیادہ 20 فیصد پر لے آئیں تو اس سے ہمارے لیے برآمدات کا ایک بڑا موقع مل جائے گا۔ راولپنڈی چیمبر کے صدر عثمان شوکت نے کہا ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مشکلات آئیں گی ،سرجیکل گڈز بڑی مقدار میں امریکہ جاتی ہیں ممکنہ طور پر یہ ٹیرف کی زد میں نہیں آئیں گی،ان کا یہ کہنا تھا کہ یو اے ای پر بہت کم ٹیرف لگا ہے ہمیں اس بات کا سد باب کرنا ہوگا کہ پاکستان کی صنعتیں کم ٹیرف کی ترغیب دیکھ کر کسی دوسرے ملک میں ری لوکیٹ نہ ہونے لگ جائیں،امریکہ کی طرف سے پاکستان پر ٹیرف کے نفاذ کے جواز دستاویز میں جو دلائل دیے گئے ہیں ان کے مطابق پاکستان کا ایم ایف این اپلائیڈ ٹیرف 10.3 فیصد ہے،جبکہ زراعت کی مصنوعات کے لیے ایم ایف این اپلائی ریٹ 13 فیصد ہے اور غیر زرعی مصنوعات کے لیے 9.9 فیصد ہے،پاکستان میں ٹیرف ریٹ میں کمی کے باوجود امریکی کمپنیاں پاکستان کے حوالے سے یہ شکایت کرتی ہیں کہ ان کو ہائی ٹیرف ریٹس کا سامنا ہے اور کچھ معاملات میں ایڈیشنل ڈیوٹیز بھی لگا دی جاتی ہیں جیسے کہ آٹوموبیل اور فنش گڈز پر لگی ہوئی ہیں،پاکستان میں ایس آر اوز سٹیک ہولڈرز کی اصلاح مشورے کے بغیر ہی جاری ہو جاتے ہیں اور نہ ہی امپورٹرز کو ان پر عمل درآمد کے لیے وقت دیا جاتا ہے،نان ٹیرف بیریئرز کے حوالے سے امریکی دستاویز میں کہا گیا ہے پاکستان میں ایسی درآمدات بھی ہیں جن کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی وزارت داخلہ اور وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز اینڈ ریگولیشن سے منظوری لینا پڑتی ہے،11 جولائی 2024ء کو پاکستان نے ایس آر او جاری کیے جن کے تحت گندم کی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر پابندی لگائی گئی، امریکی فوڈ اینڈ کنزیومر پروڈکٹ ایکسپورٹرز کی طرف سے حکام کے سامنے تشویش ظاہر کی گئی کہ پاکستان میں کسٹم ویلیویشن کے حوالے سے یکسانیت موجود نہیں ہے جس سے امریکی سٹیک ہولڈرز کو پریشانی ہوتی ہے، مشینری اور مٹیریل سیکٹرز میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی کہ کسٹم کے حکام گڈز کی ویلیو کو کم از کم ویلیو کی بجائے ڈیکلیئرڈ ٹرانزیکشن ویلیو کی بنیاد پر تشخیص کرتے ہیں۔ امریکی حکام کی طرف سے کسٹم رولز 389 اور 391 پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے ہیں، پاکستان نے بیف اور اس کی مصنوعات کی امریکہ سے درآمد پر تسلسل سے پابندی لگا رکھی ہے۔ اب پاکستان اور امریکہ کے درمیان اصولی طور پر ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت ایکسپورٹ سرٹیفکیٹ جاری ہوگا جس کے بعد امریکی بیف کے لیے پاکستانی مارکیٹ کھلے گی۔ اس معاہدے بروئے کار لانے کا انتظار دسمبر 2024ء سے کیا جا رہا ہے۔ 2022ء میں پاکستان کہ کسٹم حکام نے امریکہ کی سویابین کی دو شپمنٹس کو روک لیا، امریکی کمپنیاں یہ توقع رکھتی ہیں کہ 2025ء کی پہلی سہ ماہی میں امریکی سویابین کی درآمد نئے بائیو سیفٹی رولز کے تحت کھلے گی، امریکی کمپنیوں کی طرف سے بار بار یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان میں قیمت کی بنیاد پر جمع کرائے جانے والے ٹینڈرز میں کامیاب نہیں ہوتی۔ انٹرنیٹ سروسز کی بندش کے مسئلے کو بھی شکایت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک شکایت یہ بھی کی گئی ہے کہ امریکی کمپنیاں ایف بی آر کی طرف سے ممکنہ ٹیکس لائبلٹیز کو قبل از وقت ادا کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرتی ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں مقامی کمپنیاں ٹیکس نہیں دیتیں اور ٹیکس کی چوری میں ملوث ہیں، پاکستان میں نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو کرپشن کے خلاف لڑنے کے لیے ایک ادارہ ہے تاہم کاروباری سول سوسائٹی سٹیک ہولڈرز اس ادارے کے موثر کام کے حوالے سے تحفظات ظاہر کرتے ہیں، اگرچہ گندم اور اس کے آٹے کی برآمد کی سرکاری طور پر ممانعت ہے تاہم افغانستان کو جو گندم یا اس کا آٹا جا رہا ہے اس کی مقدار پانچ لاکھ ٹن ہے۔
ٹیرف نظام میں کمی کا فیصلہ، امریکی اقدامات کے اثرات سے نکلنے کیلئے بجٹ ایک موقع
Apr 04, 2025