4اپریل کا دن پاکستان پیپلز پارٹی کیوں مناتی ہے اور آج کے دن کیا ہوا تھا۔؟ اپریل پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جو ہمیں جمہوریت، عوامی حقوق اور سیاسی جدوجہد کی ایک لازوال داستان کی یاد دلاتا ہے۔ یہی وہ دن ہے جب پاکستان کے سابق وزیراعظم، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور عوامی رہنما، شہید ذوالفقار علی کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ آج کے دن شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ جمہوری جدوجہد کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ اپنی جان دے کر بھی امر ہوگئے اور آج بھی ان کے چاہنے والے ان کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ بھٹو ایک شخصیت کا نہیں، بلکہ ایک سوچ، ایک وڑن اور ایک انقلاب کا نام ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان کی سیاست کو ایک نئی جہت دی۔ انہوں نے 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کا نعرہ دے کر عوامی سیاست کا آغاز کیا۔ ان کا ماننا تھا کہ اقتدار کے اصل حق دار عوام ہیں، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور جمہوریت ہی ملک کی ترقی کا واحد راستہ ہے۔1971 میں جب پاکستان دو لخت ہوا، تب بھٹو صاحب نے ایک بحران زدہ قوم کو سنبھالا اور ملک کو ایک نئے حوصلے کے ساتھ آگے بڑھایا۔ ان کی قیادت میں پاکستان نے پہلا متفقہ آئین (1973 کا آئین) حاصل کیا، جو آج بھی ملک کا بنیادی قانون ہے۔ وہ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب ہوئے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کی بنیاد رکھ کر ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت ہی ان کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھی۔ 1977 میں انہیں ایک متنازع مقدمے میں ملوث کر کے گرفتار کیا گیا۔ وہ مقدمہ ہمیشہ ایک عدالتی قتل کے طور پر جانا جاتا رہا اور آخر کار ثابت بھی ہوگیا۔ 4 اپریل 1979 کو انہیں راولپنڈی کی جیل میں پھانسی دے دی گئی، مخالفین کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی ان کی موت کے ساتھ ان کے نظریہ کو ختم نہ کیا جا سکا، آج 45 سال گزر جانے کے باوجود، بھٹو کا نام پاکستان کی سیاست میں ایک اہم حوالہ ہے۔ ان کے دیے ہوئے نظریات آج بھی پیپلز پارٹی اور اس کے کارکنان کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بھٹو کا خواب ایک ایسا پاکستان تھا جہاں عوام بااختیار ہوں، جمہوریت مضبوط ہو اور ہر شہری کو اس کے حقوق میسر ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو شہید وہ شہید ہے جسے ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے 4 اپریل 1979 میں شہید کیا، یہ میں نہیں کہتا یہ 44 برس بعد ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے خود تسلیم کیا اور خود پر لگے اس سیاہ دھبے کو صاف کیا، یہ فیصلہ دینا کوئی معمولی بات نہیں تھی جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ اس سیاہ دھبے کو دہونے میں 44 سال لگ گئے، شروع میں اس کیس کو ذوالفقار علی بھٹو کی شریک حیات مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید لیکر عدلیہ کے دروازے کھٹ کھٹا تی رہیں پر افسوس یہ دروازے نہیں کھلے۔ اب لازمی سب کے دماغ میں یہ سوال آتا ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو انصاف ملنے میں آخر کار 44 سال کیوں لگے۔؟ اس کا اگر مختصر جواب دیا جائے تو یہ بالکل غلط نہیں ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے قتل میں سہولت کاری ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کی اور قتلِ کروانے والا ملک کا سب سے طاقتور ملک دشمن انٹرنیشنل سازشیوں کا مہرہ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق تھا، ملک دشمن انٹرنیشنل سازشیوں کا مہرہ اس لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شہادت سے بھٹو خاندان کا نقصان تو ہوا اس سے بھی زیادہ نقصان ملک کی غریب عوام اور پاکستان کا ہوا، اتنا تو سب کو یقین ہے آج اگر شہید بھٹو ہوتا تو پاکستان اور عوام کا یہ حال نہ ہوتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنی زندگی میں اپنے والد کو انصاف ملتا نہیں دیکھ سکی اور ان کو بھی 27 دسمبر 2007 میں شہید کردیا گیا، مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کو بھی زندگی میں اپنے شوہر کو انصاف ملنا دیکھنا نصیب نہیں ہوا آخری کار وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت آتی ہے اور بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا ادھورا رہ جانے والا خواب ذوالفقار علی بھٹو کے داماد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے جیون ساتھی صدر آصف علی زرداری نے پورا کرنے کے لیے یہ علم اٹھایا اور صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں جمع کروایا، صدر آصف علی زرداری نے اس وقت کے صدر ہونے کی حثیت سے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو انصاف دینے کا مطالبہ کردیا، پہلے تو کیس لگ نہیں رہا تھا بڑے مشکلوں کے بعد 2024 میں جب اعلیٰ عدلیہ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنا تو یہ کیس لگا اور سماعتوں کا سلسلہ جاری ہوا بھٹو صاحب کا کیس لگانا کوئی معمولی کام نہیں تھا بہت جرت مندانہ فیصلہ تھا جو کہ چیف جسٹس قاضی عیسیٰ فائز صاحب نے کیا۔ اب میں بتاتا ہوں اپنی آنکھوں دیکھا حال جب جب سماعتین ہوتی تو کیس کی پروی کرنے ذوالفقار علی بھٹو شہید کا نواسہ، محترمہ بے نطیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری سپریم کورٹ پہنچ جاتا تھا، اور دونوں سائیڈ کی طرف سے دیے ہوئے دلائل سنتا رہتا تھا،اور پھر آگیا 6 مارچ 2024 فیصلہ سنانے کا دن کورٹ روم نمبر 1 سارا بھرا ہوا تھاچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 ججز اندر آئے اور فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا جیسے جیسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فیصلہ پڑھ رہے تھے ذولفقار علی بھٹو شہید کے نواسے کی انکھوں میں آنسو آنا شروع ہو گئے سارا کورٹ روم کی فضاء سوگوار سی ہوتی گئی، ایسا لگ رہا تھا بلاول بھٹو زرداری اپنے رونے کو زبردستی کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور جیسے ہی ججز اٹھ کر چلنے لگے تو جلدی جلدی بلاول بھٹو زرداری اٹھے اور تیزی کے ساتھ باہر نکلنے لگے ہم سب سکیورٹی اور میڈیا والوں کے ساتھ باہر کی طرف دوڑ رہے تھے کیونکہ یہ طے تھا کہ فیصلے کے بعد چیرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو میڈیا ٹاک کرینگے،سیڑھیاں اتر کر تھوڑا ہے آگے چلے تو ایک دم سب رک گئے پہلے تو سمجھ نہیں آیا کہ ہوا کیا ہم صحافیوں کے ساتھ پیچھے آئے تو، سکیورٹی والے سامنے کھڑے تھے پیچھے لفٹوں کی خالی جگہ سے بلاول بھٹو کے زور زور سے رونے کی آوزیں آرہی تھیںمیری ایک دوست صحافی نے ایک دم کہا بلاول کورٹ روم میں جو رونا روک کر بیٹھے تھے وہ ان سے زیادہ روکا نہیں جا سکا اس لیے وہ یہاں اپنی دل کا بوجھ حلقہ کر رہا ہے، 44 سال بعد ان کے نانا کو انصاف ملا ہے ایسے میں کون اتنا صبر کر سکتا ہے؟ ساری دوست صحافیوں نے کہا یہ بات آپ کی ٹھیک ہے۔ کچھ ٹائیم بعد بلاول بھٹو لال آنکھوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ سامنے نظر آئے اور باہر کی طرف چل پڑے باہر جیسے میڈیا والوں کے پاس بولنا شروع کیا تو بولا ہی نہیں جا رہا تھا وہاں پر صرف بلاول بھٹو زرداری نے اتنا کہا کہ "عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ دیا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنا باقی ہے،سپریم کورٹ نے تسلیم کیا ہے کہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کو منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ صدر زرداری کی جانب سے بھیجے گئے صدارتی ریفرنس کے جواب میں عدلیہ نے واضح طور پر کہا کہ یہ فیصلہ ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ 44 سال بعد اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کا مستقبل، عدلیہ اور جمہوریت روشن ہوگی۔ یہ فیصلہ عدلیہ کے ادارے پر ایک دھبہ تھا۔ ایک عام آدمی کے لیے اس ادارے سے انصاف کی توقع رکھنا مشکل تھا جو شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف نہ دے سکا،بلاول بھٹو نے ججز، وکلاء اور عدالتی معاونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ لڑا، اور امید ہے کہ اس فیصلے کے بعد ہمارا نظام بہتری کی طرف گامزن ہوگا"۔ یہ بول کر روانا ہوگئے صحافیوں نے سوالات کرنے کی بڑی کوشش کی پر بلاول بھٹو زرداری نہیں رکے اور جاکر جلدی میں گاڑی میں بیٹھ گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی موت ان کا نظریہ ختم نہ کر سکی
Apr 04, 2025