بے نظیر کی جیل میں بھٹو سے آخری ملاقات  

Apr 04, 2025

راجہ شاہد رشید

راجہ شاھد رشید

raja.shahid1973@gmail.com

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ سے پاکستان لایا کون تھا اور ایٹم بم کی بنیاد کس نے رکھی تھی۔؟ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ پاکستان آرڈینس فیکٹری واہ ، ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا ، کراچی میں سٹیل مل اور دیگر بھی بہت سے منصوبوں کی بنیاد بھٹو نے رکھی۔ لیبر پالیسی کے تحت بیرونی ممالک میں غریب عوام کے لیے روزگار کے مواقع فراہم فرمائے۔ پاکستان (لاہور) میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ، جمعہ کی چھٹی ،  لیبر ڈے ، ورلڈ اسلامک بلاک کی بات کی ، بھٹو نے 1973ء کا پہلا متفقہ آئین دیا ، پریس کو اور عدلیہ کو آزادی دی جبکہ ہم نے اپنے عظیم عالمی لیڈر کو پھانسی کی سزا دی۔ میں نے اس ضمن میں کہا تھا کہ۔  
صدا حق کی جس نے بلند کی ہمیشہ 
ستم سامراج نے اسی پر کیا ہے  
زمانے کو جس نے حقیقت بیاں کی 
اسے پھانسی سنا کے مروا دیا ہے 
ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں ایک سات بائی دس فٹ کی کوٹھڑی میں قید رکھا گیا اور 4 اپریل 1979ء کو رات دو بجے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جیل میں تلاشی لینے کے بعد انہیں آدھے گھنٹے کی آخری ملاقات کے لیے بھٹو کے سامنے لے جایا گیا۔ ان کے درمیان پانچ فٹ کی دوری رکھی گئی۔ اپنی سوانح حیات ’’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘‘ میں بے نظیر بھٹو لکھتی ہے کہ ’’میرے والد نے میرے لائے ہوئے سب اخبارات ، میگزین اور کتابیں اس آخری ملاقات میں مجھے واپس کر دیں۔ وہ مجھے اپنی شادی کی انگوٹھی بھی دے رہے تھے لیکن میری والدہ نے انہیں روک دیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ابھی تو میں اسے پہن لیتا ہوں لیکن بعد میں اسے بے نظیر کو دے دیا جائے۔ اتنے میں جیلر نے کہا کہ ملاقات کا وقت ختم۔ بے نظیر مزید لکھتی ہیں کہ میں نے کہا پلیز میرے والد پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں اور میں ان کی بیٹی ہوں ، یہ میری ان سے آخری ملاقات ہے اور مجھے ان کو گلے لگانے کا حق ہے لیکن جیلر نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے کہا گڈ بائے پاپا۔ میری والدہ نے سلاخوں کے درمیان ہاتھ بڑھا کر میرے والد کے ہاتھ کو چھوا۔ ہم دونوں تیزی سے باہر کی جانب نکلیں۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی لیکن میری ہمت جواب دے گئی۔‘‘ میرے محترم قارئین اگر سچ پوچھیں تو میری بھی اب ہمت جواب دے رہی ہے کہ میں یہ پْر درد داستانِ بے نظیر اس سے آگے لکھوں یا پڑھوں۔ 
درد کی داستان ہیں بھٹو 
عظمت کا نشان ہیں بھٹو 
سوہنے دیس پاکستان کی 
آن ،  بان ،  شان ہیں بھٹو 
میں ان دنوں اپنی کتاب ’’بھٹو سے بے نظیر تک‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں مصروف ہوں اور درحقیقت پریشان حال و فکر مند بھی ہوں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری ، جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن و تجزیہ کار سہیل وڑائچ ، سابق وفاقی وزیر اطلاعت قمر زمان کائرہ ، ڈاکٹر نفیسہ شاہ ، سابق MNA غلام مرتضی ستی ، سینیٹر ملک شہادت عوان ، گورنر KPK فیصل کریم کنڈی ، بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشور اور کالم نگار راجہ انور ، سابق سینیٹر مولا بخش چانڈیو اور سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے تاثراتی مضامین بھی کتاب میں شامل ہوں گے ، آپ ضرور پڑھیے گا۔ ملاحظہ فرمائیے کتاب کی ایک جھلک۔  
وہ حق کی خاطر لڑنے والا 
وہ بات عوام کی کرنے والا
سولی چڑھ کے امر ہوا ہے 
وہ بھٹو کب ہے مرنے والا  
روزنامہ جنگ کے گروپ ایڈیٹر اور عہد موجود میں کالم صحافتوں و ادارتوں کے ماہر و مرشد سہیل وڑائچ نے ایک صحافتی سیمینار میں بڑے دبنگ انداز میں یہ صد فی صد درست سوال اٹھایا تھا کہ ’’وہ ججز جنہوں نے پاکستان کے منتخب PM کی جان لے لی ، ان کی تصاویر سپریم کورٹ میں کیوں لگی ہیں ، وہ تصاویر ہٹائی جائیں ، ان کے ناموں پر سیاہی پھیری جائے ، انہیں علامتی سزا دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا پاکستان کی سمت ہی درست نہیں ہو سکتی۔ باتیں کرنا آسان جبکہ جان دینا مشکل ہے۔ برائے کرم پی پی اور دیگر پارٹیوں میں یہ فرق ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ کس نے خون دیا ہے اور کون صرف باتیں کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ 45 سال بعد یہ فیصلہ ہوا کہ پھانسی غلط تھی ، وہ فیصلہ ہی غلط تھا بلکہ ایک عدالتی قتل تھا لیکن فیصلہ کرنے والے کیا کسی کہ ٹاؤٹ تھے۔؟ اصل مجرم کا کیا بنا ، وہ جنرل ضیاء الحق جو پیچھے تھا جس نے پھانسی دلوائی اس کے بارے میں کیا فیصلہ ہوا ، اس کی قبر کیوں فیصل مسجد میں ہے۔ اس کی قبر وہاں سے اٹھا کر عام قبرستان میں کیوں نہیں بنائی جاتی۔۔۔؟‘‘ محترم قارئین ان موضوعات پر مزید بھی آپ سے بات ہو گی اور ضرور ہوگی لیکن کالم میں نہیں ، عنقریب آنے والی اپنی ساتویں کتاب میں لکھوں گا جس کا نام ہے ’’بھٹو سے بے نظیر تک‘‘۔

مزیدخبریں