اصغر علی شاد
امر اجالا
Shad_asghar@yahoo.com
ایک وقت تھا جب دنیا میں پاپولسٹ اور انتہا پسند لیڈروں کو قانون سے بالاتر سمجھا جاتا تھا۔ ان کی مقبولیت، مضبوط بیانیہ، اور میڈیا پر گرفت کے باعث انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا مشکل تصور کیا جاتا تھا۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ لیڈر قانونی کارروائی سے بچتے رہے اور اپنی کرپشن یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہتے۔ تاہم اس سلسلے میں پاکستان نے ایک نئی مثال قائم کی اور ایک ایسا عدالتی رجحان متعارف کروایا جو آج عالمی سطح پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں سزا دی گئی، جس نے ملکی سیاست اور عدلیہ میں ایک اہم موڑ پیدا کیا۔ اس فیصلے کو ابتدا میں مغربی میڈیا اور عمران خان کے حامیوں نے ''سیاسی انتقام'' کا نام دیا، مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ انصاف کے یکساں اطلاق کی ایک مضبوط مثال تھی۔ اس فیصلے نے ثابت کیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور چاہے کوئی کتنا ہی مقبول لیڈر کیوں نہ ہو، اگر وہ قانون توڑے گا تو اسے سزا ملے گی۔مبصرین کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا اور اس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ یورپی ممالک، جہاں مقبول لیڈران اکثر قانونی شکنجے سے بچ نکلتے تھے، نے بھی اس رجحان کو اپنانا شروع کر دیا۔حال ہی میں فرانس کی انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لی پین کو مالیاتی خوردبرد کے الزامات پر چار سال قید اور بھاری جرمانے کی سزا دی گئی، جبکہ ان پر مستقبل میں الیکشن میں حصہ لینے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔غیر جانبدار حلقوں کے مطابق یہ فیصلہ نہ صرف یورپ میں سیاسی کرپشن کے خلاف ایک نئی لہر کی علامت ہے، بلکہ اس میں پاکستان کے عدالتی ماڈل کی جھلک بھی دیکھی جا سکتی ہے۔یاد رہے کہ میرین لی پین ایک عرصے سے فرانس میں دائیں بازو کی سیاست کی ایک مقبول علمبردار تھیں۔ ان کا بیانیہ عوام میں خاصا مقبول تھا اور وہ یورپ میں کئی سیاسی تبدیلیوں کا سبب بھی بنی تھیںمگر حالیہ عدالتی کارروائی نے یہ ثابت کیا کہ اب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اپنے لیڈروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے سے نہیں ہچکچا رہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق مقبول سیاستدان ہونے کا بنیادی طریقہ کار یہی ہوتا ہے کہ قانون کو بیانیے اور جذباتی نعروں کے ذریعے کمزور کیا جائے اورعوام کو انصاف اور احتساب کے خلاف کھڑا کر دیا جائے اور ریاستی اداروں کو کمزور کر کے کرپٹ حکمرانی کو دوام بخشا جائے۔تاہم، پاکستان میں عمران خان کے خلاف عدالتی کارروائی اور فرانس میں میرین لی پین کی سزا نے ثابت کر دیا کہ دنیا اب مقبول سیاستدانوں کے لیے مزید نرم گوشہ نہیں رکھتی بلکہ اب یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی بھی لیڈر، چاہے وہ کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر رہے۔اس تما م صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں عدلیہ نے کئی سخت اور تاریخی فیصلے دیے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم ہو رہی ہے۔ عمران خان کا کیس صرف ایک مثال ہے، مگر اس کے اثرات عالمی سطح پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ پاکستان کی عدالتی آزادی کا ایک مضبوط پیغام تھا کہ سیاست میں کسی بھی شخصیت کو قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا۔ اسی ضمن میں پاکستان کی اس پالیسی نے ایک نئی مثال قائم کی اور یورپی ممالک کو بھی مجبور کیا کہ وہ اپنے کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف ایکشن لیں۔ میرین لی پین کی سزا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ عالمی عدالتی نظام میں ایک نیا رجحان پروان چڑھ رہا ہے، جہاں کسی بھی پاپولر لیڈر کو محض عوامی مقبولیت کی بنیاد پر معاف نہیں کیا جائے گا۔یہ امر توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان میں عدالتی سختی کے بعد دیگر ممالک میں بھی سیاسی احتساب کے حوالے سے نئی بحثیں شروع ہو چکی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اور دیگر یورپی ممالک میں بھی اس حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں تاکہ سیاستدانوں کو قانون کے تابع بنایا جا سکے۔یہ رجحان نہ صرف جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے عوامی اعتماد بھی بحال ہوگا کیوں کہ جب تک قانون سب کے لیے یکساں نہیں ہوگا، جمہوریت ایک تماشا بنی رہے گی۔ پاکستان نے اس حوالے سے پہل کر کے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی بھی شخصیت قانون سے بڑی نہیں۔مبصرین کے مطابق پاکستان میں ہونے والی عدالتی پیش رفت نے ایک نئی عالمی مثال قائم کی ہے۔ یورپ میں میرین لی پین کی سزا اس بات کا ثبوت ہے کہ اب دنیا انصاف کے معاملے میں دوہرا معیار نہیں اپنا رہی۔ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اگر وہ جرم کرے گا تو اسے سزا ملے گی۔پاکستان نے اپنی عدالتی مثال سے دنیا کو سکھایا ہے کہ انصاف سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے۔ آج مغربی ممالک بھی اسی راہ پر چلنے کا آغاز کر دیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا عدالتی ماڈل محض ایک مقامی واقعہ نہیں بلکہ ایک عالمی تحریک کا حصہ بن چکا ہے۔
پاکستان سے فرانس تک : عدالتی نظام میں رجحانات
Apr 04, 2025