یہ فروری کے آخری دن تھے۔شدید سردی، بارش اور گھپ اندھیرے نے ماحول کو زیادہ خوفزدہ تو نہیں بنایا تھا البتہ پُراسراریت کیساتھ جیکٹ اور ٹراؤزر کے بھیگنے سے کپکپی طاری ضرور ہو رہی تھی۔ زندگی میں کبھی کبھی تھوڑا بہت ایڈونچر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ جان لیوا نہ ہو۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہیـ پونے دو کلو میٹر ٹریک کے دوسرے راؤنڈ کے وسط میں بارش ہونے لگی۔ قریب ہی اوپن شلٹر میں بنچ لگے ہیں۔ وہاں سیراور جشن بہاراں کے نظارے کیلئے آئے ڈیڑھ درجن کے قریب لوگ تین چار جوڑوں سمیت دُبکے اور چُپکے بیٹھے تھے۔
بارش رکنے کا انتظار کیا مگر کب تک! بارش تھوڑی سی ہلکی ہوئی تو پختہ ٹریک پر چل پڑا۔ بارش پھر تیز ہو گئی۔ کار پارکنگ تک پہنچنے میں پندرہ منٹ لگنے تھے۔ پانچ منٹ چلنے کے بعد گاڑی کی لائٹس نظر آئیں قریب جا کر دیکھا ، پارک میں چلنے والی سفاری وین کھڑی تھی ۔ اوپن شلٹر کی طرح اس کی بھی صرف چھت ہی تھی ۔ خالی وین کے باہر دو خواتین تین بچوں سمیت موجود تھیں۔ ڈرائیور ان سے کرایہ طے کر چکا تھا۔ میں اجازت طلب کرتے ہوئے پچھلی بھیگی سیٹ پرسمٹ کربیٹھ گیا۔ گاڑی چلاتے ہوئے ڈرائیور نے کہا 80 روپے کا ٹکٹ ہے۔ ان لوگوں سے اْس نے 240 روپے لیکر ٹکٹ دے دیئے تھے۔ سردی سے ابھی دانت تو نہیں بج رہے تھے البتہ صحیح طرح سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا جیب میں پیسے نہیں ہیں، کار پارکنگ میں جا کر لے لینا۔ مالک نے بڑی سختی کی ہوئی ، اس نے پھر اصرار کیا۔ اسی دوران اسکے فون کی بیل بجی، گاڑی روک کر کال سنی۔ کال ختم ہوئی تو ہمیں بتایا مالک نے وین خالی کراکے لانے کو کہا ہے۔ اس سردی اور بارش میں دس منٹ پیدل چلنے کا مطلب نمونیہ نہیں تو بخار کہیں نہیں گیاتھا۔
قارئین! اس موقع پر آپ ہوتے تو کیا ردّعمل ہوتا۔وین سے اتر کر خراماں خراماں چلنا شروع کردیتے؟ لمحہ جو لمحہ مسعود یا نامسعود ہو سکتا تھا، میں نے کسی بھی حد تک جانے کا سوچ لیا۔اس لمحے سوچا ٹھٹھر کر مرنے سے بہتر ہوگا ڈرائیور کو اٹھا کر پرے پھینکوں اور گاڑی چلا کر لے جاؤں۔ ڈرائیور کے ’’جہازنما‘‘ ہونے کے باعث شاید اس خیال نے زیادہ زورپکڑا تھا۔
مگر اس لمحہ سے قبل جو یقینا لمحہ نامسعود ہونا تھا۔ ڈرائیور کو گاڑی چلانے کو کہا، اس نے دوسری بات نہ کی،گاڑی چلا دی۔ تھوڑا آگے گئے تو ان خواتین اور بچوں کے دو نوجوان ساتھی جا رہے تھے وہ بھی وین میں بیٹھ گئے ۔ان سے ڈرائیور نے کرایہ طلب نہیں کیا۔ چند منٹ کی مسافت کی رفاقت میں یہ لوگ ڈیسنٹ اور نوبل نظر آئے۔ ڈرائیورکا رویہ بھی قدرتی طور پریا نوجوانوں کی موجودگی میں ہمدردانہ ہوگیا تھا ۔
کرونا پر معاشرے میں خوف و ہراس اور ہیجان پایا جاتا ہے۔ حکومت کا اسی پر فوکس ہے۔ اسکے فوکس کو ڈی فوکس کرنیوالے بھی سرگرم ہیں۔ سیاست کا بازار گرم ہے۔ کسی کوموردِ الزام ٹھہرانے کی ضرورت نہیں نیک نیتی کا ہمیشہ نام دوبالا اور بدنیتی کا منہ کالا ہوتا ہے۔ حکومت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جس سے بیروزگاری کا جن بوتل سے باہر آ گیا۔ غریبوںکا گزارہ اور سفید پوشوںکیلئے بھرم رکھنامشکل ہو گیا۔ حکومت نے اس موقع پر تاریخی 12 سو ارب روپے کا پیکیج دیا مگر آبادی اور اسکی ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ کم ہے۔ حالات لاک ڈاؤن سے کرفیو کی طرف گئے تو صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ حکومت نے امدادی پیکیج کیساتھ وزیراعظم کرونا ریلیف فنڈ بھی قائم کیا ہے۔کچھ تنظیموں نے نیک نیتی اور کچھ نے دیہاڑی لگانے کیلئے اپنے اپنے ریلیف فنڈ قائم کردیئے ہیں ۔حکومت کے قائم کردہ فنڈ کے بعد ایسے فنڈ کی ضرورت نہیں رہتی۔اپوزیشن پارٹیاں کرونا سے نجات کیلئے مرکزی حکومت کو "مفید مشورے" دے رہی ہیں ۔ان کی نیک نیتی اور ماضی کی دیانت پر" شبہ" نہیں۔ مسلم لیگ ن کی کشمیر اور گلگت بلتستان جبکہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے وہ وہاں اُ س رول ماڈل کو لاگو کرکے مرکز کیلئے مثال قائم کرسکتی ہیں۔ امدادی کام کیلئے انفرادی طور پر بھی لوگ سرگرم ہیں۔ کئی دھنوانوں نے دھن کی بوریاں الٹ دی ہیںجن سے زیادہ ترنے کشکول بھر لیے مگر بہت سے حقدار محروم ہیں۔ امدادکا ارتکاز ہورہا ہے۔ کچھ لوگ نہال اور کچھ بدستوربے حال ہیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ قتل غیرت کے بعد پانی کے جھگڑوں پر ہوتے ہیں۔ قتل کی نوبت فصلوں کو پانی نہ ملنے سے اولاد کے فاقوں مرنے کے خدشے کے تحت آتی ہے۔ کرونا کے تدارک کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کی سختیوں سے کسی کو اپنے بچے بھوکوں مرنے کا خطرہ ہوا تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اس کا ہاتھ ان گریبانوں تک پہنچ سکتا ہے جن کو وہ اپنی دانست میں ذمہ دار سمجھے گا۔ ایسا موقع اور لمحہ کو آنے سے بہرصورت روکنااور بچنا ہے۔ ’’حقدار کا ہاتھ گریبان تک پہنچنے سے قبل اس کا حق ہاتھ پر رکھ دو‘‘ بھکاری فطرت عناصر مستحق لوگوں کو محروم کررہے ہیں۔ اصل حقداروں کو تلاش کر کے ان کو ممکنہ فاقوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔ کوئی اوپر والے ہاتھ کا نیچے والے کو پتہ نہ چلنے دے یا تصویر اور ویڈیو بنا کر تشہیر کرے ہر دو صورتوں کی گنجائش ہے۔ پاکستان میںوسائل اور اناج کی کمی نہیں۔ کسی کے بھوک سے مرنے کا سوال ہی پیدا نہیں مگر ضرورت صرف تھوڑی سی منصفانہ تقسیم کی ہے۔ عوامی نمائندگان بھی اپناکردار ادا کریں۔ جن کی کھربوں کی جائیدادیں ہیں۔ وہ حالات کے جبرکے پاٹوں میں پسنے والوں کی مدد کرکے نیکی کمائیں ، اجر پائیں اوراپنی جان بھی بچائیں۔ کرپٹ مافیا نے کھربوں ڈالر کی جائیدادیں بنائیں، ان کا ضمیر جاگنے کی امید عبث ہے۔انکے اندر ضمیر اورانسانیت نام کی رمق یا کوئی چیز ہوتی تو وہ کرپشن کرتے ہی کیوں!ان کیلئے لمحہ نامسعود قریب آسکتا ہے ۔بھوکے لوگ بپھرتے ہیں تو وہی ہوتا ہے۔ فرانس کی ملکہ اور اُ س دورکے رئیسوں کے ساتھ ہوا جن کو لوگوں نے اپنی بھوک کا ذمہ دار قرار دیکر موت کی لکیر پار کرانا شروع کردی تھی۔ پھانسی گھاٹ اور جلاد کم پڑ گئے تو گلوٹین مشین ایجاد کی گئی ۔
اوپر اور نیچے والے ہاتھوں کی بقا ایک خاندان بننے میں ہے ،اُس جہاز کے مسافروں کی طرح جب افریقہ کے جنگل میں مسافر کو چاروں انجن بند ہونے پر کریش لینڈنگ کرنا پڑی۔ خوش قسمتی سے جہاز لرزتا لڑکھڑاتا لینڈ کر گیا۔ بدقسمتی سے لینڈنگ دلدل میں ہوئی، کنارہ دور نہیں تھا۔ جہاز کے مکمل غرق ہونے تک بہت سے مسافر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور یہ ایک خاندان کی مانند ایک دوسرے کی بقاء کیلئے فکر مند تھے۔ اس سے بھی زیادہ ہولناک حادثہ جنوبی امریکہ کے 45 مسافروں کے جہاز کو 13نومبر 1972ء کو پیش آیا جب جہاز برفانی پہاڑیوں سے ٹکرا گیا جس میں 16مسافر ہلاک ہوگئے۔ جو بچ رہے وہ ایک خاندان کی طرح رہے۔ راشن ختم ہوگیا تو مردہ ساتھیوں کو کھانے لگے۔ بالآخر 72دن بعد ان کی زندگی تک رسائی ہوگئی۔ اللہ نہ کرے کسی کو بھی ایسے حادثات سے دوچار ہونے کے بعد انسانوں کے ایک خاندان ہونے کا احساس ہو، ابھی کیوں نہ ادراک کرلیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024