کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کے اقدامات میں تکریم انسانیت کی پاسداری بھی ضروری ہے

وزیراعظم عمران خان کا موجودہ وسائل میں کرونا وائرس پر قابو پا لینے کا عزم اور عوامی مسائل کے حل کے اقدامات
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلائو کی جو صورتحال دوسرے ممالک میں ہے‘ وہ پاکستان میں نہیں جو ہم پر اللہ کا خاص کرم ہے۔ گزشتہ روز ٹیکس ریفنڈ چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جس رفتار سے اب تک پاکستان میں کرونا وائرس پھیل رہا ہے‘ اس پر ہم موجودہ وسائل میں قابو پالیں گے‘ ہم نے اپنی کنسٹرکشن انڈسٹری کو سہولتیں دینے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے ہم نے بہت بڑا پیکیج تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاروبار کو ہم نے اس لئے سپورٹ کرنا ہے کہ کاروباری طبقہ کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ہم ڈیلی ویجرز تک احساس پروگرام کے ذریعے پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو براہ راست پیسے پہنچائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک طرف کرونا اور دوسری طرف معیشت کے مسائل کا سامنا ہے۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ لاک ڈائون میں لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دیں تاکہ کرونا نہ پھیلے۔ ہم مسلسل سوچ رہے ہیں کہ کونسی صنعت چلے گی تو لوگوں کو روزگار بھی مل جائیگا اور کرونا پھیلنے کا خوف بھی نہیں ہوگا۔ اس حوالے سے ہم نے تعمیراتی صنعت کھولنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ ایسا نہ ہو کہ ہم کرونا سے بچاتے بچاتے لوگوں کو بھوک سے مرنے سے نہ بچاپائیں۔
مشیر امور خزانہ حفیظ اللہ شیخ نے اس تقریب میں خطاب کرتے ہوئے بجلی اور گیس کے بل تین ماہ میں ادا کرنے کی رعایت دینے کا اعلان کیا اور بتایا کہ ہم نے فوڈ پروڈکشن پر ڈیوٹی ختم کردی ہے اور ایک ہفتے میں 107‘ ارب روپے ٹیکس ریفنڈ کی مد میں واپس کئے جائینگے۔ انکے بقول حکومت نے عوام کیلئے ایک کھرب 2‘ ارب روپے کا پیکیج دیا ہے جس سے متاثرہ افراد کی مدد کی جائیگی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے نوجوانان عثمان ڈار نے بتایا کہ گزشتہ 48 گھنٹے میں تین لاکھ نوجوان ٹائیگر فورس کیلئے رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
کرونا وائرس نے چین اور ایران کے بعد مغرب اور یورپ میں جس وسیع پیمانے پر انسانوں کو لپیٹ میں لیا اور اس وقت اس موذی وائرس سے دنیا بھر میں پچاس ہزار انسانی ہلاکتیں ہوچکی ہیں جبکہ کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے‘ اسکے پیش نظر پاکستان کرونا وائرس کی سب سے کم لپیٹ میں آنیوالے ممالک میں شامل ہے تاہم اس سے یہ مراد نہیں کہ اس قدرتی آفت سے غافل ہو کر ہم کسی قسم کے احتیاطی اقدامات بھی نہ اٹھائیں اور کرونا وائرس کو پھیلائو کی دعوتِ عام دینا شروع کر دیں۔ ہمیں بہرصورت اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ہے کہ تمام تر احتیاطی اقدامات اٹھانے اور سخت ترین لاک ڈائون کرنے کے باوجود امریکہ میں پانچ ہزار سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں جبکہ سپین میں گزشتہ ایک روز میں 950‘ برطانیہ میں 596‘ فرانس میں 471‘ اور ایران میں 124 ہلاکتیں ہوئی ہیں اور بھارت میں ایک دن میں دس اور سعودی عرب میں چھ افراد جاں بحق ہوئے ہیں تو ہم احتیاطی اقدامات میں بے احتیاطی کے مرتکب ہو کر کتنی انسانی جانوں کو دائو پر لگائیں گے۔ اگرچہ پاکستان میں اب تک 36‘ افراد کرونا وائرس سے جاں بحق ہوئے ہیں اور اس وائرس کے متاثرین کی تعداد 25 سو کے قریب ہے تاہم اس وائرس کا پھیلائو جاری رہنے سے مزید جانی نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اس وائرس سے بچائو اور خلاصی کیلئے ہمیں خدا کے حضور سربسجود بھی رہنا ہے‘ اس ذاتِ باری تعالیٰ کے خاص کرم کیلئے بھی عاجزی سے دعائیں مانگنی ہیں اور جو ممکنہ احتیاطی اقدامات ہو سکتے ہیں‘ وہ بھی بہرصورت اٹھانے ہیں جس کیلئے قوم حکومتی فیصلوں کی پابندی بھی کررہی ہے اور گزشتہ روز اسلامیانِ پاکستان نے مساجد میں جانے کی بجائے گھروں میں ہی نماز جمعہ اور دوسری نمازوں کی ادائیگی کا فریضہ ادا کیا۔ سندھ میں تو گزشتہ روز تین گھنٹے تک مکمل لاک ڈائون رہا جبکہ پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی اب بتدریج لاک ڈائون سخت کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان بیروزگاری پھیلنے اور اشیائے ضرورت کی قلت پیدا ہونے کے خدشے کے تحت کرفیو والے لاک ڈائون کے حق میں نہیں جس کا انہوں نے گزشتہ روز ٹیکس ریفنڈ تقریب میں بھی اعادہ کیا ہے جبکہ ان کا یہ کہنا بھی حوصلہ افزاء ہے کہ ہم اپنے موجودہ وسائل میں ہی کرونا وائرس پر قابو پالیں گے۔ تاہم یہ کرونا وائرس کا پھیلائو روک کر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے وسائل سے مالامال ترقی یافتہ ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کرونا وائرس کے آگے انکے سارے وسائل بھی کسی کام نہیں آسکے اور وہ بے بسی کی تصویر بنے خدا کے حضور سر جھکانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اس تناظر میں ہمیں جو بھی احتیاطی اقدامات اٹھانے ہیں اس میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھنا ہے کہ تکریم انسانیت پر کسی قسم کی زد نہ پڑے اور شرف انسانیت پر کوئی حرف نہ آئے۔ اسی طرح ہمیں اپنی مذہبی عبادات کے حوالے سے بھی ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جن سے شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہوں۔ اس کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے احتیاطی اقدامات کے پیرامیٹرز متعین کر دیئے ہیں جن سے مذہبی عبادات میں کسی قسم کا خلل پیدا نہ ہو اس لئے متعلقہ انتظامی مشینری کو اپنے اقدامات میں بہرصورت اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں۔ اس حوالے سے پولیس کی ناروا سختیوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جس کا چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے علاوہ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی چودھری فواد نے بھی نوٹس لیا ہے جن کے بقول بعض ایسے واقعات ہو رہے ہیں جیسے کرونا کا مریض کوئی مجرم ہو۔ انہوں نے اس حوالے سے کرونا کے مریضوں کو زبردستی تنہائی میں رکھنے‘ رسیوں سے باندھنے اور ڈاکٹروں کی جانب سے علاج کی سہولتیں نہ دینے کا بھی نوٹس لیا جبکہ ان معاملات کا حکومتی اتحادی مسلم لیگ (ق) کے قائدین چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی نوٹس لے چکے ہیں۔ کرونا مریضوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک تکریم انسانیت کے بھی منافی ہے جبکہ مرنے والے کرونا مریض کے لواحقین کو اسکی نماز جنازہ میں شرکت کرنے اور میت کو غسل دینے کی اجازت نہ دینے سے ان مریضوں کے اچھوت ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ کرونا کے مریضوں کے بارے میں یہ تاثر بہرصورت پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے اور شرف انسانیت کی پاسداری کی جانی چاہیے جومحسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور ہمارے سلامتی کے دین پر عمل پیرا ہونے کا تقاضا بھی ہے۔