ہفتہ ‘ 10 ؍ شعبان 1441ھ‘ 4 ؍ اپریل 2020ء
حکومت لیگی قیادت سے جیل بھر رہی ہے: سینیٹر پرویز رشید
پتہ نہیں‘ پرویز رشید کو یہ بھنک کہیں سے پڑی ہے یا وہ گڑھے مردے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ عربی کی ایک ضرب المثل ہے جس کا مفہوم ہے ’’بھولا ہوا سبق یاد کرانا‘‘۔ اس کا سیاق و سباق کچھ یوں ہے کہ ایک راہگیر کو ڈاکوؤں نے ناکے پر روکا اور لوٹ مار کی کوشش کی، راہگیر نے منت سماجت کی تو ڈاکوؤں نے کہا کہ کمان اور ترکش‘ تلوار اور زرہ بکتر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ راہگیر نے کمان کھینچی اور تیر چلاتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’ تم نے مجھے بھولا ہوا سبق یاد کرا دیا ہے۔‘‘ لگتا ہے پرویز رشید بھی کسی کو بھولا ہوا سبق ہی یاد کرا رہے ہیں ورنہ ضمانتوں کا ’’موسم‘‘ تو سب سے زیادہ لیگی قائدین پر ہی ’’مہربان‘‘ ہوا ہے۔ شاہد خاقان عباسی رہا ہوئے، احسن اقبال کی ضمانت ہوئی ، خواجہ برادران بھی ضمانت شدہ ہوگئے۔ رانا ثناء اللہ بھی مستفید ہوئے۔ بہت سارے ’’چھوٹے موٹے‘‘ تو شمار بھی نہیں کیے جا سکتے۔
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
یوں ’’لیگیوں‘‘ کی ’’دھڑا دھڑ‘‘ ضمانتیں منظور ہوئیں، اب تو سینیٹر پرویز رشید کو حکومت اور اپوزیشن کو ایک صفحے پر آنے کا صائب مشورہ دینا چاہیے۔ کسی کو بھولا ہوا سبق یاد نہ ہی کرائیں بلکہ یہاں چودھری شجاعت کا ’’مقولہ‘‘ ہی موزوں ترین ہے کہ ’’نواں کٹا نہ کھولا جائے۔‘‘
*...*...*
چینی شہر شینزن میں کتے بلی کا گوشت کھانے پر پابندی لگا دی گئی
ہلاکت، تباہی اور بربادی اس وقت ہوتی ہے جب انسان فطری پابندیوں کو توڑتا ہے۔ بعض ماہرین صحت تو کرونا کو قوانین قدرت کی ایسی ہی خلاف ورزیوں کا سبب قرار دے رہے ہیں لیکن انسان ابھی بھی اپنی حرکتوں سے باز آنے کام نہیں۔ شاید ایسی ہی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی حکومت کو یہ ’’انتہائی قدم‘‘ اٹھا پڑا ہو لیکن یہاں بھی چینی حکومت نے اپنے عوام کی ’’خواہشات ‘‘ اور ’’ترجیحات‘‘ کا بھرپور خیال رکھا ہے اور پابندی کا اطلاق یکم مئی سے کیا ہے تاکہ پورا ایک مہینہ چینی عوام جتنا ’’انجوائے‘‘ کرسکتے ہیں کرلیں۔ ہوسکتا ہے کہ کرونا کے دوران سینکڑوں چینی ایسی ’’ڈش‘‘ سے محروم رہے ہوں اور اب کرونا سے شفاف و صحت یابی کا جشن منانا چاہتے ہوں۔
بہرحال ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق ہر دو صورتوں میں چینی حکومت کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ کاش حلال و حرام کی تمیز ہو اور سمجھ بھی آجائے کیونکہ کرونا کے بارے میں کئی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کتنی پاکیزہ، صاف ستھری اور فطری تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔
صنعتکار حسین دائود کی طرف سے ’’کرونا فنڈ‘‘ میں ایک ارب روپے کا عطیہ
حدیث پاک کا مفہوم یوں ہے کہ ’’آقا کریمؐ نے دو آدمیوں کو قابل رشک قرار دیا ہے ،ان میں ایک وہ ہے جس کو علم و حکمت عطاء ہو اور وہ اس چراغ سے چراغ روشن کئے جا رہا ہو۔ دوسرا وہ جس کو مال و دولت نصیب ہو اور وہ راہ خدا میں لٹائے جا رہا ہو۔‘‘ حسین دائود نے بھی یقینا ایک قابل رشک کام کیا ہے۔ اپنے خاندان اور دائود فائونڈیشن کی جانب سے کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ہے جویقینا معمولی نہیں بلکہ اتنی بھاری رقم گنتے بھی وقت لگتا ہے اور یہ کام ان لوگوں کیلئے بھی قابل تقلید ہے جو شادیوں پر ڈالروں، ریالوں اور پائونڈوں کی بارش کر دیتے ہیں پھر کہیں پولیس اور کہیں ایف بی آر کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں تو ایسے لوگوں کو حسین دائود کی تقلید کرنی چاہئے۔ امید ہے ایک ارب روپے کا سن کر کسی ملکی، قومی ادارے یا محکمے کی رال نہیں ٹپکے گی۔ ایف بی آر والے بھی ان کے پیچھے نہیں پڑیں گے۔ ویسے بھی حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ کرونا کے لئے عطیہ دینے والوں سے پوچھ گچھ نہیں ہوگی بہرحال …؎
ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار
جستجو جو کرے وہ چھوئے آسمان
*...*...*
’’ضرورت مند منتخب نمائندے راشن لے جائیں‘‘: ملتان میں بینر آویزاں
کرونا وائرس کے باعث ملک میں طویل لاک ڈاؤن کے دوران ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے منظر عام سے غائب رہنے پر شہریوں کا غم و غصہ سامنے آ ہی گیا۔` ملتان کے مختلف علاقوں میں بینر آویزاں کر دیئے گئے ہیں کہ ’’ضرورت مند منتخب نمائندے راشن لے جائیں‘‘۔ ویسے یہ بات انتہائی باعث شرم اور قابل افسوس ہے کہ ہمارے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی نے اگلے الیکشن تک کبھی پلٹ کر دیکھا ہے نہ کسی آزمائش و مشکل میں اپنے ووٹروں کے پاس جا کر کوئی حوصلہ دیا ہے۔ کرونا میں تو لگتا ہے کہ سارے ارکان اسمبلی اور سابق منتخب اور آنے والے وقت میں امیدوار بلدیاتی ارکان بالکل ہی منظر عام سے غائب ہیں۔ لگتا ہے کہ ارکان اسمبلی، حکومتی ہیں یا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے‘ سبھی مشاورت سے ’’قرنطینہ‘‘ میں چلے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو ارکان اسمبلی کے لیے ’’پیشکش‘‘ کئی دنوں سے موجود ہے کہ ’’کسی ایم پی اے، ایم این اے کو ماسک، سینی ٹائزر چاہیے تو وہ حلقہ میں عوام سے رجوع کریں۔‘‘ لوگوں کا شکوہ بجا ہے کہ اگر کسی نے مشکل وقت میں کام نہیں آنا تو پھر ‘‘اس کا اچار ڈالنا ہے۔‘‘ بقول میاں محمد بخش…؎
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے