معروف صحافی نوائے وقت اور دی نیشن کے ایڈیٹرانچیف مجید نظامی نے صحافت کا آغاز تو اپنے زمانہ طالب علمی سے کر دیا تھا اور پھر بانی نوائے وقت حمید نظامی کی وفات کے بعد 1962ء میں ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں جنہیں 52سال تک انتہائی جانفشانی کے ساتھ انجام دیا۔ سول حکمران ہو یا آمر جناب مجید نظامی کسی کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ مجید نظامی کی ساری زندگی جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی جدوجہد میں گزری۔ انہوں نے آمریت کے خلاف طویل ببانگ دہل جنگ لڑی۔ نظریہ پاکستان سے ان کی وابستگی سب پر عیاں تھی۔ مجید نظامی صحافت کے درخشاں ستارے تھے جن پر پوری صحافتی برادری کو فخر ہے۔ وہ ساری زندگی مسلم لیگ کو اکٹھا کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ بھارت سے کشمیر سمیت دیگر معاملات پر بھارتی ہٹ دھرمی کے خلاف ان کی تحریر و تقریر سے ہر کوئی آگاہ ہے۔ مجید نظامی کو نہ صرف دنیائے صحافت میں کئی ایوارڈ ملے بلکہ ان کی نظریہ پاکستان سے وابستگی کی بناء پر بھی کئی ایوارڈز ملے۔ جناب مجید نظامی کی نظریہ پاکستان سے وابستگی اٹوٹ تھی۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوںکی مدد کیلئے وہ پیش پیش رہتے تھے۔ انہوں نے 53سال تک بطور مدیر فرائض سرانجام دے کر ایک ریکارڈ قائم کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ نظریہ پاکستان فائونڈیشن کا قیام ہے جس کے وہ چیئرمین تھے۔ وہ مرکزی مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری اور بعدازاں ایوان اقبال کے سربراہ بھی رہے۔ وہ تحریک پاکستان میں سرگرم کارکنوں کو گولڈمیڈل دینے والی تنظیم کے نگران بھی تھے۔ طالب علمی کے زمانے میں تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہنے کے باعث پاکستان کے وزیراعظم اور قائداعظم کے معتمد ترین ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خاںنے انہیں اعزازی شمشیر بھی عطاء کی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے انہیں صحافت میں شاندار خدمات پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے جناب مجید نظامی کو ستارہ امتیاز، ستارہ پاکستان اور نشان امتیاز کے ایوارڈ ملے۔ اے پی این ایس کی طرف سے اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا۔ انہوں نے ساری زندگی ملت اسلامیہ پاکستان کی خدمت میں صرف کی اور نظریہ پاکستان پر نہ صرف سختی سے کاربند رہے بلکہ اس کی ترویج کیلئے عملی جدوجہد بھی کرتے رہے۔ جناب مجید نظامی نے ایوب خان کے آمرانہ دور میں 1964ء کے صدارتی انتخاب میں بڑی جرأت اور ہمت سے حکومت کا مقابلہ کیا۔ نوائے وقت نے بڑی شدت سے کھل کر محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی جو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھیں۔ مجید نظامی 1981ئ، 1985ئ، 1992ئ، 1996ء اور 1999ء میں اے پی این ایس کے صدر رہے۔ کئی بار سی پی این ای کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ مزید یہ کہ انہیں ایک سال کیلئے دونوں تنظیموں کا بیک وقت صدر ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل رہا۔ 1998ء میں جب نوازشریف نے بطور وزیراعظم ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کرنا تھا تو جناب مجید نظامی نے وزیراعظم کی ایڈیٹروں کی بریفنگ میں یہ کہا تھا کہ وزیراعظم صاحب اب دھماکہ کر دیں ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں ان کا کردار ہمیشہ اظہر من الشمس رہے گا۔ آپ وسیع تر قومی خدمات کے حوالہ سے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ آپ نے زندگی بھر نظریہ پاکستان کو جزوایمان خیال کیا اور ایک قومی درد کے ساتھ ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی اور ملک کو قائداعظم محمد علی جناح، ڈاکٹر علامہ اقبال، محترمہ فاطمہ جناح اور لاکھوں شہدائے آزادی کی امانت سمجھا۔ نظریہ پاکستان کے ابہام کو آئین دشمنی قرار دیا اور ساری زندگی ایک اسلامی سلطنت کے قیام اور آزادی کشمیر کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ آپ نے ہمیشہ قومی اتفاق رائے اور مضبوط جمہوریت کو ملکی ترقی کا زینہ قرار دیا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا معاملہ ہو، بنگلہ دیش میں پاکستانی محصورین ہوں، بوسنیا اور فلسطین کے مسلمانوں کے مسائل ہوں، قدرتی آفات ہوں، سب کے حل کیلئے ہمیشہ صف اول میں کھڑے نظر آئے۔ ڈاکٹر مجید نظامی پاکستان کی ایک روشن تاریخ تھے جنہوں نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کی اپنی روایات کو ہر دور میں زندہ رکھا تھا۔ کشمیر کی آزادی، کالاباغ ڈیم کی تعمیر، بنگلہ دیش کو دوبارہ پاکستان میں شامل کرنے کا عزم اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی مایوس نہیں تھے۔ انہوں نے بھارت کی عیاری کو ہمیشہ قوم کے سامنے آشکار کرکے چھوڑا۔ آج بھی ان کا نام پاکستان میں جرأت و استقامت کا نشان ہے۔
جس طرح انہوں نے قیام پاکستان کی روشنی نظریہ پاکستان کے احیاء کو ملک کے کونے کونے میں نظریہ پاکستان فورمز کا جال بچھا دیا ہے، اس سے آج وطن عزیز میںلاکھوں نوجوان ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کی صدا بلند کئے ہوئے ہیں جو لوگ پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کیلئے سرگرم تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی للکار اور جرأت سے وہ اپنی موت آپ مر گئے۔ وہ پاکستان کے ایک سچے اور وفادار جانثار ساتھی تھے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38