ایٹمی جنگ کی ممکنہ تباہ کاریوں پر عالمی برادری کو بہرصورت فکر مند ہونا چاہیے
بھارتی فائرنگ سے چار جوانوں کی شہادت‘ جوابی کارروائی میں سات بھارتی فوجیوں کی ہلاکتیں اور چین کی وارننگ
بھارتی فوج نے گزشتہ 48 سے 72 گھنٹوں کے دوران جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ گزشتہ روز کنٹرول لائن پر بلااشتعال بھارتی فائرنگ سے پاک فوج کے تین جوانوں سمیت چار افراد شہید ہوگئے جبکہ پاک فوج نے دشمن فوج کو اسکی جارحیت کا بھرپور جواب دیا۔ اس جوابی کارروائی میں سات بھارتی فوجی ہلاک اور 19 زخمی ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کیمطابق پاکستان کی جوابی کارروائی میں بھارت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور کنٹرول لائن راولاکوٹ سیکٹر پر فائرنگ کے تبادلے کے دوران متعدد بھارتی فوجی چوکیاں تباہ ہو گئیں۔ کھوئی رٹہ میں بھارتی فوج نے شہری آبادی پر گولہ باری کی جس کے نتیجہ میں ایک اٹھارہ سالہ نوجوان شہید ہوگیا۔
دریں اثناء چین کے نائب سفیر لی جیانگ نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت جنگ کی صورت میں پورا جنوبی ایشیاء تباہ ہوگا۔ گزشتہ روز سی پیک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان بھارت جنگ ہو کیونکہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت کے حامل ہیں جن میں جنگ کی صورت میں پورے خطے کی تباہی ہوگی۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا سی پیک پر اتفاق رائے ہے۔ اس منصوبے پر سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے دور میں کام ہوتا رہا ہے۔ انکے بقول سی پیک کے پہلے مرحلے کے اقتصادی زونز تکمیل کے مرحلے میں ہیں جس کے بعد اقتصادی زونز کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا۔
یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کی نوبت آئی تو یہ پہلے جیسی روایتی جنگ نہیں ہوگی اور اس میں لامحالہ ایٹمی ہتھیار استعمال ہونگے۔ اگر پاکستان یا بھارت میں سے کسی بھی جانب سے ایٹم بم کو شعلہ دکھا دیا گیا تو پاکستان اور بھارت سمیت یہ سارا خطہ پلک جھپکتے میں راکھ کا ڈھیر بن جائیگا جبکہ ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے دنیا کے دیگر ممالک بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے اور اس کرۂ ارض پر ہر ذی روح ایٹمی تابکاری سے اس بری طرح متاثر ہوگا کہ ان کیلئے زندگی مستقل عذاب بن جائیگی جبکہ ایٹم بم چلنے سے یہ پوری دھرتی بانجھ ہو جائیگی جہاں کوئی فصل اگ سکے گی نہ پانی پینے کے قابل رہے گا۔ اس حوالے سے امریکی‘ برطانوی اور خود بھارتی سائنس دانوں کی جو تحقیقاتی رپورٹس سامنے آئی ہیں‘ انکے مطابق پاکستان یا بھارت میں سے جو بھی ملک جس علاقے پر ایٹم بم پھینکے گا‘ وہاں چند سیکنڈز میں 20 سے 30 لاکھ انسان جل کر بھسم ہو جائینگے جبکہ ایٹمی تابکاری پھیلتے ہوئے جہاں جہاں سے گزرے گی‘ وہاں انسانی‘ زمینی اور فضائی تباہی کا اہتمام کرتی جائیگی۔ تحقیقات کے مطابق ایٹم بم چلنے سے اٹھنے والا زہریلا دھواں پورے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جس سے سورج کی روشنی مفقود ہو جائیگی اور کرۂ ارض پر اندھیرا چھا جائیگا جبکہ اس سے موسمی تغیروتبدل بھی رونما ہوگا جو ہر ذی روح سے زندگی کی رمق چھین لے گا اور دنیا کے کسی خطے میں کوئی انسان زندہ بچ جانے میں کامیاب ہوگیا تو وہ اپنی باقیماندہ زندگی عملاً زندہ درگور ہو کر گزارے گا۔ یہ تحقیقاتی رپورٹیں ایٹم بم چلنے کی صورت میں فی الحقیقت قیامت برپا ہونے کی عکاسی کرتی ہیں۔
اب تک اس کرۂ ارض پر صرف دو ایٹم بم چلے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکہ نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر چلائے تھے۔ اس سے یہ دونوں شہر ہر ذی روح سمیت جل کر خاکستر ہوگئے تھے جبکہ ان ایٹم بموں سے پھیلنے والی تابکاری جہاں جہاں پہنچی وہاں انسانوں کو اپاہج بناتی اور پیچیدہ امراض میں مبتلا کرتی گئی۔ آج سے 78 برس قبل استعمال کئے گئے یہ ایٹم بم ابتدائی مراحل کی ایٹمی ٹیکنالوجی سے تیار ہوئے تھے جو اتنی زیادہ تباہی کا باعث بنے تو آج بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جدید ایٹمی ٹیکنالوجی کی بنیاد پر تیار کئے گئے ایٹمی وارہیڈز جو پاکستان اور بھارت کے پاس تقریباً یکساں تعداد میں موجود ہیں‘ استعمال ہونے کی صورت میں کس انسانی تباہی کی نوبت لائیں گے اور اس سے کتنے انسانی المیئے جنم لیں گے۔ اسی بنیاد پر آج عالمی قیادتیں اور انسانی حقوق کے چیمپئن عالمی ادارے پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی پر متفکر ہیں اور ان دونوں ممالک کے مابین جنگ کو‘ جو لامحالہ ایٹمی جنگ ہی ہوگی‘ ٹالنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کو بھی بے تاب نظر آتے ہیں اور جنگ سے گریز کیلئے دونوں ممالک پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکنے کیلئے چاہے منافقانہ ہی سہی‘ کچھ نہ کچھ کردار ادا کر بھی چکے ہیں۔ اسی طرح برادر چین اور یورپی یونین کی جانب سے بھی پاکستان بھارت کشیدگی کے مضمرات پر متعدد بار تشویش کا اظہار کیا جا چکا ہے جو بہرحال انسانیت کو بچانے کے ناطے سے ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا واحد حل نہیں اور اگر دوطرفہ مسائل کے حل کے دوسرے ذرائع اور پلیٹ فارم موجود ہیں تو انہیں ضرور بروئے کارلانا چاہیے۔ عالمی برادری کی نمائندہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اور علاقائی فورم اسی تناظر میں تشکیل پائے ہیں کہ کسی تنازعہ پر دو یا زیادہ ممالک کے مابین جنگ اور طاقت کے استعمال کی نوبت نہ آنے دی جائے اور متعلقہ فورموں پر باہم مل بیٹھ کر مسائل اور تنازعات کا حل نکالا اور متعلقہ ممالک کو اس حل کی راہ پر لایا جائے تاہم اگر بھارت جیسا کوئی ہٹ دھرم ملک اور اسکی ہمہ وقت آمادۂ جنگ جنونی قیادتیں مذاکرات کے ذریعے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ ہی نہ ہوں اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر ان پر جنگ کا بھوت ہی طاری رہے تو اس کا علاج بزور اس کا خناس نکالنے کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس تناظر میں پاکستان بھارت تعلقات اور کشیدگی کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو بھارت کا جارح کے سوا اور کوئی روپ نظر نہیں آتا جس نے قیام پاکستان کے وقت ہی اسکی سلامتی کمزور کرنا اپنے ایجنڈے کا حصہ بنالیا تھا۔ اسکے تحت ہی اس نے بزور کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اور پھر اپنے ہی پیدا کردہ اس مسئلہ کے حل کیلئے بھارتی وزیراعظم نہرو نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جہاں اس مسئلہ کا حل کشمیریوں کو استصواب کا حق دیکر نکالا گیا تو بھارت اس نمائندہ عالمی ادارے کی قراردادوں سے بھی منحرف ہوگیا اور کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرکے پاکستان کی سلامتی کو نہ صرف چیلنج کرنا شروع کیا بلکہ اس پر تین جنگیں بھی مسلط کیں اور سانحۂ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں پاکستان کو دولخت کرنے کی نوبت بھی لے آیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی تاراج کرنے کے درپے ہوگیا۔ اس مقصد کے تحت ہی بھارت نے 1974ء میں ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی۔ اگر پاکستان کی قیادتوں نے بھی ان بھارتی سازشوں کا توڑ خود کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کی صورت میں نہ نکالا ہوتا تو بھارت باقیماندہ پاکستان کو بھی کب کا اپنی جنونیت کی بھینٹ چڑھا چکا ہوتا۔ یقیناً پاکستان نے اپنے دفاع کے نکتہ نظر کے تحت بہ امر مجبوری ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کی ہے اور آج خدا کے فضل سے ایٹمی ٹیکنالوجی میں بھارت پر پاکستان کا پلہ بھاری ہے۔ اسکے باوجود پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کا استعمال اپنے دفاع کا آخری آپشن بنایا ہوا ہے جبکہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور تنصیبات اسکی کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہیں۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی بھارتی جنونیت کے سامنے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے تحفظ کیلئے بہترین ڈھال بنی ہے مگر پاکستان اور مسلمانوں کی کٹر دشمن بھارت کی موجودہ مودی سرکار پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کے اپنے مذموم ایجنڈا کے تحت پاکستان پر جنگ مسلط کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور سرحدی کشیدگی انتہاء تک پہنچا چکی ہے۔ وہ کشمیر تو کجا‘ پانی کے تنازع کے حل اور کرتارپور راہداری کے معاملات طے کرنے کیلئے بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی روادار نہیں۔ آج یہ حقیقت پوری دنیا پر منکشف ہوچکی ہے کہ پاکستان کیساتھ مذاکرات سے ہمیشہ بھارت نے ہی انکار کیا ہے جس سے بھارتی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو گزشتہ روز بھی امریکی وزیر خارجہ پومپیئو سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران ان پر پاکستان بھارت مذاکرات کی راہ ہموار کرنے پر ہی زور دیا ہے جبکہ پاکستان کسی بھی سطح کے مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جو اس امر کا عکاس ہے کہ پاکستان کو جنگ نہیں‘ امن مقصود ہے۔ تاہم تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر بھارتی ہاتھ جنگ کی جانب ہی بڑھ رہے ہوں تو ان ہاتھوں کو توڑنا ضروری ہو جاتا ہے جیسا کہ پاک فضائیہ نے گزشتہ ماہ بھارت کے دو جہاز گرا کر بھارتی جنونیت کا مسکت جواب دیا اور گزشتہ روز کنٹرول لائن پر جارح بھارتی سورمائوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلایا گیا ہے۔
اس تناظر میں امریکہ‘ چین اور اقوام متحدہ سمیت ہر علاقائی اور عالمی قیادت اور ہر نمائندہ فورم کو بھارتی جنونیت کے آگے بند باندھنے کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ پر لانا چاہیے۔ بھارت کی جنونیت برقرار رہی اور اس جنونیت میں اس نے پاکستان پر جارحیت مسلط کرنے کی کوشش کی تو اسکے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کا آپشن ہی بچے گا۔ اگر بھارت آگ سے ہی کھیلنا چاہتا ہے تو اس کا نشہ ہرن کرکے ہی ہم اپنی سلامتی کے تقاضے نبھا سکتے ہیں جس کیلئے عساکر پاکستان اور پوری قوم ہمہ وقت تیار ہے۔ پھر شاید اس بھارتی جنونیت کے ہاتھوں تباہ ہونیوالی دنیا کی تاریخ مرتب کرنے کیلئے بھی کوئی نہیں بچے گا۔ اس کا جنونی مودی سرکار کو ادراک نہیں تو عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو اس کا ادراک بھی ہونا چاہیے اور فکرمندی بھی۔ پاکستان بہرصورت امن کا داعی ہے اور اپنے دفاع کیلئے ہمہ وقت تیار بھی ہے اور ایٹمی ٹیکنالوجی ہی ہمارا دفاعی حصار ہے۔