احتساب عدالت نے واجد ضیا کو والیم 10 حاصل کرنے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیدیا
اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ جرح کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے مطابق آہلی سٹیل ملز کے باقی 25فیصد شیئرز 1978ء سے 1986ء کے دوران فروخت ہوئے تاہم ایسا کوئی واضح ثبوت یا دستاویز دستیاب نہیں جس سے ثابت ہو کہ شیئرز 1978ء سے 1986ء کے درمیان فروخت کئے گئے، عدالت نے واجد ضیا کو جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم دس کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا ہے، دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا پہلے پورا جواب آنے دیا کریں پھر لکھوایا کریں سوال بھی بڑا کرتے ہیں پھر جواب آتا ہے تو پورا سنتے بھی نہیں، جس پر خواجہ حارث ناراض ہو کر نشست پر بیٹھ گئے اور کہا ایسا کرتا ہوں کہ میں بیٹھ جاتا ہوں، جج محمد بشیر نے خواجہ حارث کو مشورہ دیا کہ آپ انہیں بہت تھکا دیتے ہیں، انہیں چائے پلایا کریں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز موسم کی خرابی کے باعث لاہور سے نہ آنے پر عدالت میں پیش نہ ہوسکے جبکہ کیپٹن(ر) صفدر عدالت میں پیش ہوئے،سماعت شروع ہوئی تو فاضل جج نے پوچھا کہ ملزمان آگئے ہیں تو نواز شریف کے معاون وکیل کی طرف سے بتایا گیا ابھی نہیں آئے ، فاضل جج نے کہا کہ ابھی ساڑھے نو بجنے میں کچھ ٹائم ہے ساڑھے نو بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نواز شریف کے وکیل نے نواز شریف اور مریم نواز کی ایک دن کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جسے عدالت نے منظور کر لیا،خواجہ حارث نے عدالت کو آگاہ کیا کہ موسم کی خرابی کے باعث لاہور سے اسلام آباد فلائٹ دستیاب نہیں تھی، نواز شریف ایئر پورٹ آئے تھے وہاں بیٹھے رہے، خراب موسم کی وجہ سے پائلٹ کو جہاز اڑانے کی اجازت نہیں مل سکی۔خواجہ حارث نے واجد ضیا سے پوچھا کہ آپ کے پاس جو جواب آیا اس میں میوچل لیگل ریکویسٹ کا حوالہ دیا گیا،کیا یہ درست ہے،اس میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ آپ کی میوچل لیگل ریکویسٹ کے ساتھ کوئی دستاویز لگائی گئی ہوں واجد ضیا کی جانب سے عدالت میں جواب دیاخط کے مطابق یہ بات درست ہے کہ درخواست کے ساتھ کوئی کاغذ نہیں لگایا گیاہم نے چار ایم ایل اے بھیجے دو کا تعلق خریدوفروخت کے معاہدے سے تھا،خواجہ حارث نے پوچھا جن صاحب کے اس خط پر دستخط ہیں کیا کوئی جے آئی ٹی ممبر ان کا بیان لینے دبئی گیا، واجد ضیانے کہا کہ نہیں کوئی جے آئی ٹی ممبر بیان لینے نہیں گیا، خواجہ حارث نے کہا کہ کسی جے آئی ٹی ممبر نے یہ کنفرم کیا کہ خط پر موجود دستخط اسی جج عبدالرحمن مراد کے ہی ہیں،واجد ضیا نے کہا کہ کسی رکن نے بھی دبئی کے جج صاحب سے رابطہ نہیں کیا،خواجہ حارث نے کہا کہ جج عبدالرحمن نے کبھی نہیں لکھا کہ ان کا ذاتی علم ہے کہ یہ ریکارڈ دبئی کورٹ سسٹم میں موجود نہیں، واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات کبھی نہیں لکھی گئی کہ جج صاحب کے ذاتی علم میں کچھ ایسا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بات بھی نہیں لکھی گئی کہ جج عبدالرحمان نے دبئی کورٹ سسٹم، دبئی کسٹم یا سنٹرل بنک جا کر یہ معلومات حاصل کی یا تصدیق کی،واجد ضیا نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ جج عبدالرحمان نے یہ بات بھی کبھی نہیں لکھی،خواجہ حارث نے پو چھا کہ کیا تحقیقات کے دوران آپ کے نوٹس میں آیا کہ سروے کا سائیڈ پلان بھی موجود ہے، واجد ضیاء نے کہا جی بالکل سائیٹ پلان بھی موجود تھا،خواجہ حارث نے کہا کہ کیا جے آئی ٹی نے اس سائیٹ پلان کی کوئی تحقیقات کیں، واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے سائیٹ پلان کے متعلق مزید کوئی تحقیقات نہیں کی کہ یہ مصدقہ ہے یا نہیں،خواجہ حارث نے کہاکہ اس میں دبئی کورٹ سسٹم،دبئی کسٹم اور سینٹرل بنک سے متعلق کوئی دستاویز نہیں لگائی گئیں جو خط لکھا گیا اس پر سوال نمبر دو، تین،چار سے متعلق کوئی دستاویز ساتھ نہیں لگائی گئی جس پر واجد ضیا نے جواب دیایہ بات درست ہے کہ خط میں موجود تین سوالوں سے متعلق کوئی دستاویز نہیں لگائی گئیں،واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی کی طرف سے مجموعی طور پر یو اے ای حکومت کو سات ایم ایل ایز لکھے گئے،جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے 4ایم ایل ایز گلف اسٹیل اور طارق شفیع سے متعلق تھے، یہ یاد نہیں کہ گلف اسٹیل کا معاہدہ ان چار میں سے کس کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا،اس سوال کا جواب دینے کے لیے مجھے ریکارڈ دیکھنا پڑے گا،ریکارڈ سربمہر ہونے کی وجہ سے ابھی نہیں دیکھ سکتا،واجد ضیاء نے کہا کہ باہمی قانونی مشاورت کے تحت لکھے گئے خطوط سے متعلق ریکارڈ سربمہر ہے،یہ بات درست نہیں ہے کہ جے آئی ٹی نے والیم ٹین کو سربمہر حالت میں پیش کیا، رپورٹ کے والیم ٹین کو سیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے زبانی استدعا کی تھی، سپریم کورٹ کے تحریری حکم کا علم نہیں، واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے والیم ٹین کی پانچ کاپیاں سپریم کورٹ میں پیش کی تھیں۔ والیوم ٹین کی ایک سربمہر آفس کاپی جے آئی ٹی کے پاس بھی ہے، خواجہ حارث نے سوال کیاآپ سپریم کورٹ کو درخواست دینا چاہیں گے کہ والیم ٹین کو ڈی سیل کیا جائے تاکہ ریکارڈ دیکھ سکیں؟ جس پر واجد ضیا نے جواب دیا میں سپریم کورٹ کو درخواست دینے کے لیے تیار ہوں۔ خواجہ حارث نے گواہ سے سوال پوچھا کیا جے آئی ٹی نے نجی بنک سے ریکارڈ لیا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ طارق شفیع کی طرف سے قرض کی رقم ادا کی گئی، جس پر واجد ضیانے جواب دیاجے آئی ٹی نے ایسا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا1986ء میں طارق شفیع نے نئے کاروبار کے لیے بی سی سی آئی بنک سے قرضہ لیانئے قرضے کے اجرا سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنک کی طرف سے چودہ ملین درہم کی ادائیگی کی گئی جے آئی ٹی نے کسی بنک افسر کا بھی بیان قلمبند نہیں کیا جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویز بھی حاصل نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ طارق شفیع نے قرض ادا کیا ہو۔ میاں محمد شریف نے دبئی میں نیا کاروبار بھی شروع کیا جسے طارق شفیع چلاتے تھے، خواجہ حارث نے کہا گواہ جو بھی جواب دے پورا دیں ایک بار دیں اور اچھی طرح سوچ کر دیں کیا کسی گواہ نے کہا آہلی سٹیل مل 1978ء سے 1980ء کے مابین سیل ہوئی اور کوئی ایسی شہادت آئی جس سے پتہ لگے کہ شیئرز 1980ء سے 1978ء کے درمیان بیچے گئے جس پر واجد ضیا نے جواب دیا طارق شفیع نے کہا کہ آہلی سٹیل مل سیل ہوئی۔نہیں ایسی کوئی شہادت نہیں آئی،خواجہ حارث نے کہا کہ پھر آپ نے کیسے نتیجہ اخذ کیا کہ 1978ء سے1986ء کے دوران شیئرز فروخت کئے گئے ، ۔ خواجہ حارث نے سوال کیا کہ چودہ اپریل 1980ء کے معاہدے تحت ایسی کوئی دستاویز آئی جس میں آپ نے کہا ہو کہ یہ مصدقہ ہے اور کوئی ثبوت آیا جس سے پتہ لگے کہ 1978سے 1980ء کے درمیان سٹیل مل سیل ہوئی،جس پر واجد ضیاء نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی دستاویز نہیں۔ خواجہ حارث نے واجد ضیا سے پوچھا آپ نے کہا کہ پچیس فیصد شیئرز کی فروخت سے 14ملین درہم کے بنک بقایا جات ادا کئے گئے، جس پر واجد ضیانے جواب دیاایسا میں نے کب کہا؟ مجھے دیکھنے دیں، خواجہ حارث نے پوچھاآج ہی آپ نے یہ بات کہی، دیکھ کر بتائیں کہ یہ بات کس گواہ نے پیش ہو کر کہی، جس پر واجد نے کہاطارق شفیع نے بیان دیا کہ بنک کے بقایا جات ادا کر دئیے گئے تھے خواجہ حارث نے سوال کیاطارق شفیع نے یہ کب کہا کہ پچیس فیصد شیئرز کی فروخت سے بنک کا قرض اتارا گیا۔ واجد ضیا نے جواب دیا طارق شفیع نے بتایا کہ بقایا جات ادا کئے گئے مگر یہ علم نہیں کہ کیسے اور کس نے ادائیگی کی یہ بات درست ہے کہ طارق شفیع نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کس نے اور کیسے بقایا جات ادا کیے واجد ضیا نے مزید بتایا کہ جے آئی ٹی نے ایسی کوئی دستاویز نہیں دیکھی جس سے معلوم ہو کہ 14ملین درہم کے بقایا جات کس نے ادا کئے 14ملین درہم کے بقایا جات کی ادائیگی کو کوئی دستاویز جے آئی ٹی کو نہیں ملی۔ عدالت نے مزید سماعت آج صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی ،آج بھی واجد ضیا کے بیان پر جرح جاری رہے گی۔