کالاباغ ڈیم ناگزیر‘ نوائے وقت ریفرنڈم میں اتفاق رائے سامنے آچکا ہے
سپریم کورٹ کا کالاباغ ڈیم ریفرنڈم کیس پر وفاق کو نوٹس‘ مخالفین کو مجید نظامی کا آرٹیکل ’’واٹربم‘‘ پڑھنے کا مشورہ
سپریم کورٹ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاق کو نوٹس جاری کردیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق ریفرنڈم کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے موقف اپنایا گیا کہ 2025 میں پانی کی سطح ختم ہوجائیگی اور ابھی سے ہی ملک میں پانی کی قلت پیدا ہورہی ہے۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں ڈیمز بننے چاہئیں، کالاباغ ڈیم کے معاملے پر صوبوں میں اتفاق نہیں ہے، مشترکہ مفادات کونسل نے کالا باغ ڈیم سے متعلق عوام کو آگاہی دینے کا فیصلہ دیا لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سابق چیئرمین واپڈا نے کالا باغ ڈیم پر آگاہی شروع کی، اس پر چیئرمین واپڈا کو نکال دیا گیا۔دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت نے فیصلہ کرنا ہے اور حکومت نے پانی کی فراہمی کو دیکھنا ہے۔سماعت کے دوران درخواست گزار بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ اگر نام کا مسئلہ ہے تو کالا باغ کی جگہ بے نظیر بھٹو ڈیم رکھ لیں لیکن یہ ڈیم پاکستان کا مستقبل ہے۔اس موقع پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ مسئلہ نام کا نہیں مسئلہ گہرا ہے، بعد ازاں عدالت نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ریفرنڈم کی درخواست پر وفاق کونوٹس جاری کردیا۔عدالت نے کہا کہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی آگاہی مہم کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں اس پر بھی وفاق جواب دے، جس کے بعد کیس کی سماعت 15 دروز کیلئے ملتوی کر دی گئی۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس میں فاضل چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے معمار نوائے وقت محترم مجیدنظامی (مرحوم)کے2008 میں لکھے گئے آرٹیکل ’’واٹر بم‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کی جانب سے اس آرٹیکل کا بھی مطالعہ کیا جائے، مجید نظامی نے پانی کی قلت کے حوالے سے موجودہ صورتحال سے متعلق پہلے ہی اشارہ کردیا تھا مگر حکومتوں کی جانب سے اس پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ چیف جسٹس نے جناب مجید نظامی اور انکے آرٹیکل کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی وہ آرٹیکل پڑھا ہے۔ 27مئی 2008ء کو دی نیشن نیو ز پیپر میں مجید نظامی نے The Water Bomb کے نام سے جو آرٹیکل لکھا وہ من و عن اس ایڈیٹوریل کے نیچے آج شائع کیا جارہا ہے۔ اس کا مفہوم ہے کہ پاکستان کو شدید خطرات کا سامناہے مگر پانی کا معاملہ دیگر ایشوز کے مقابلے میں انتہائی سنجیدہ ہے بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریائوں کا پانی روک کر پاکستان میں پانی کا بحران پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں بنائے گئے رولز کے مطابق اس (پانی کی قلت) ایشو کے بارے میں شعور اجاگر نہ کرنا پاکستان کی غلطی ہے۔
جناب مجید نظامی مرحوم نے اپنی وفات سے چھ سال قبل پانی کی اہمیت اور ضرورت کو واضح کردیا تھا۔ وہ پاکستان کی پانی اور بجلی کی ضرورت کیلئے کالاباغ ڈیم کو ناگزیر قرار دیتے تھے۔ پانی کی کمی پر کہتے ہم اس ایشو کو زیادہ لمبے عرصے نظر انداز نہیں کرسکتے، زراعت، معیشت اور پاکستان کے استحکام کیلئے بالآخر اس کا انجام نقصان دہ ہوگا، پاکستان کو اپنی سالمیت برقرار رکھتے ہوئے بحرانوں پر قابو پانا مشکل ہو جائیگا۔ بھارت نے معاملے کی حساسیت کا اندازہ کرتے ہوئے اور پاکستان کیلئے اندرون خانہ نقصان پہنچانے کیلئے پانی پر قبضہ کرکے پاکستان کیلئے مشکلات کھڑی کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، وقتا فوقتاً58ڈیمز بنائے تاکہ پاکستان کے دریائوں جہلم اور سندھ کا پانی روک لیاجائے اور اس پانی کو روک کر (قحط، پانی بحران)اور چھوڑ کر(سیلاب) کیاپنے مذموم مقاصد حاصل کیئے جاسکیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے تحت ماہرین نے کانفرنسز کیں، نظر یہ پاکستان ٹرسٹ نے سب سے پہلے مستقبل کے پانی کی کمی کا اندازہ لگاتے ہوئے میڈیا رپورٹس شائع کیں۔ تاریخ جانتی ہے کہ ریڈ کلف اور مائونٹ بیٹن نے 1947ء کو تقسیم پاکستان میں پنجاب کی بائونڈری لائنز مقرر کرنے میں بددیانتی اور بے ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ آرٹیکل میں پاکستان کے ڈیموں، دریائوں کی تقسیم میں ہونے والی مبینہ بے ضابطگیوں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے، آرٹیکل کے تناظر میںکہا گیا ہے کہ ’’واٹر بم ‘‘ پاکستان کی ایک حقیقت ہے جس کا احاطہ بنائے گئے رولز نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس حوالے سے ہونیوالی نام نہاد کانفرنسز کرسکتی ہیں۔
سابق چیئرمین واپڈا ظفرمحمود نے پانی کی قلت کے مضمرات کی آگاہی مہم شروع کی اور پانی کی کمی کے تدارک کی تجاویز پیش کیں تو اپوزیشن نے ان کیخلاف محاذ کھول لیا۔ اس حکومت کو ان سے استعفیٰ لینے پر مجبور کردیا جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حامی ہے مگر اتفاق رائے کے سامنے سرنڈر کرچکی ہے۔ ایک اور سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک بھی کالاباغ ڈیم کے مخالفین کی توپوں کی زد میں رہے ہیں۔ خیبر پی کے میں کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنیوالے ڈیم بننے کی صورت میں اسے بم سے اڑانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے خیبر پی کے کا شہر نوشہرہ ڈوب جائیگا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی بات ہوئی تو گورنر سرحد (کے پی کے) جنرل فضل حق فیتہ لے کر نوشہرہ جا پہنچے اور عوامی رائے کوفیتہ دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے یوں گمراہ کیا کہ کالاباغ ڈیم بنا تو شہر اتنا زیرآب جائیگا۔ شمس الملک کا اپنا گھر نوشہرہ میں ہے‘ وہ بالاصرار کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ کے ڈوبنے کا واویلا محض پراپیگنڈا ہے۔
کالاباغ ڈیم کی زیادہ مخالفت کے پی کے اور سندھ کے کچھ نام نہاد قوم پرست عناصر کی کی طرف سے کی جاتی ہے۔ بھارت کالاباغ ڈیم کی مخالفت کیلئے سالانہ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت بڑے سیاسی ’’فنکار‘‘ بھی کرتے ہیں۔ ہر کسی پر بھارت نوازی کا شبہ کیا جا سکتا ہے نہ الزام لگایا جا سکتا ہے مگر جس شدت سے کچھ لوگ کالاباغ ڈیم کی مخالفت کررہے ہیں وہ دال میں کچھ کالا کی نشاندہی بھی ہے۔ تاہم کچھ لوگوں کا صورتحال سے مکمل آگاہ نہ ہونے سے پاکستان کے بہترین مفاد کے منصوبے کی مخالفت بھی بعید ازقیاس نہیں۔
آج مزمل حسین واپڈا کے چیئرمین اپنے پیشروئوں کی طرح پانی کی شدید کمی پر دلگرفتہ نظر آتے ہیں۔ وہ بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو پانی کی قلت پر قابو پانے کا منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے پارلیمنٹیرین کو اس حوالے سے بریفنگ دینے کی کوشش کی تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور انکے کچھ ہمخیال پارلیمنٹیرین حضرات نے بات سننے سے انکار کردیا۔ آپ متفق ہوں یا نہ ہوں‘ بات سننے میں کیا حرج ہے! جب آپ بات ہی نہیں سنیں گے تو مسئلے کا حل کیسے نکلے گا؟
کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ کے ڈوبنے کا واویلا کرنیوالے یہ بھی سوچیں کہ 2010ء میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تباہ کن سیلاب آیا‘ اس میں آدھا کے پی کے ڈوب گیا تھا۔ کالاباغ ڈیم کی دانستہ یا نادانستہ مخالفت بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے اور اسکے پاکستان کو پانی کے ہتھیار سے تباہ کرنے کے منصوبے کی حمایت کے مترادف ہے۔ وزیراعظم مودی نے برملا اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان آنیوالے پانی کے آخری قطرے کو بھی روکیں گے۔
پانی پاکستانیوں‘ انکے جانوروں اور فصلوں کیلئے ناگزیر ہے۔ یہ پانی ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے‘ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اسی لئے قرار دیا تھا کہ یہ وادی پاکستان آنیوالے پانی کا منبع ہے۔ کشمیر کی آزادی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے جناب مجید نظامی کی سربراہی میں نوائے وقت کا ایک واضح موقف رہاہے۔ آزادی کشمیر کی منزل تو ہنوز دور نظر آتی ہے مگر کالاباغ ڈیم ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر اتفاق رائے کی قدغن لگا کر اسے مردہ گھوڑا قرار دیا جا رہا ہے۔ وسیع پیمانے پر مخالفت کی صورت میں اتفاق رائے کی بات کی جاسکتی ہے جہاں مخالفت کرنیوالے مٹھی بھر ہیں مگر سیاسی طور پر مضبوط ہیں جو کالاباغ ڈیم کی حامی حکومتوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ انکے اتفاق رائے کی شرط بھی نوائے وقت نے ملکی سطح پر 2010ء کے ہلاکت خیزسیلاب کے بعد کالاباغ ڈیم پر قومی ریفرنڈم کا اہتمام کرکے پوری کردی تھی جس میں چاروں صوبوں سے.95 99 فیصد سے بھی زیادہ لوگوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کی۔ ان میں خیبر پی کے والوں نے بھی واضح اکثریت کے ساتھ کالاباغ ڈیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ملکی سطح پر ریفرنڈم کے حوالے سے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے جس سے ملک کے بہترین مفاد میں فیصلے کا یقین ہے۔