ذوالفقار علی بھٹو،عظیم وژنری ‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی اور معمار تھے بھارت سے ہزار سال تک لڑنے کا عزم رکھتے تھے وہ بلاشبہ منفرد مزاج قوم پرست حکمران تھے۔انہوں نے آج تک بروئے کار افغان پالیسی کی بنیاد رکھی تھی انہوں نے 70 کی دہائی کے وسط میں جواں سال گل بدین حکمت یار اور جلال الدین حقانی کو پاکستان بلایا تھا یہ ذوالفقارعلی بھٹو مرحوم تھے جنہوں نے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل، شراب اورگھڑدوڑ پر پابندی اور ڈانسنگ کلب بند کروائے تھے وہ ''متنازعہ اقدامات''جن کی وجہ سے لبرل پاکستان کا روشن چہرہ مسخ ہوگیا تھا۔
عام طورپر خیال کیاجاتاہے کہ یہ تمام اقدامات جنرل ضیاء الحق نے نافذکیے تھے جو کہ سراسر غلط ہے لیکن عوامی امنگوں کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے کی تاریخ ساز اقدام ان کے لئے توشہ آخرت بنے گا۔
وہ چاہتے تھے کہ پاکستان صرف ان کے زیر سایہ رہے اور ترقی کرے عظمتوں کو چھوئے اور آسمانوں کی رفعتوں کو پالے۔ بھٹو مرحوم شراکت اقتدار یا جمہوری اقدار پر بالکل یقین نہیں رکھتے تھے عوامی رائے اور ووٹ کی حرمت کے بارے میں مادر ملت فاطمہ جناح سے لے کر 77 کے عام انتخابات تک ان کے عمل یا رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ بھٹو مرحوم کی زندگی کااجمالی جائزہ لیاجائے تو اسے تین حصوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے پہلاحصہ ایوان اقتدار میں سر شاہنواز بھٹو کے اعلی تعلیم یافتہ صاحبزادے کی حیثیت سے آمد اورخاندانی جاہ وحشمت کے ساتھ سکندر مرزا کی کابینہ میں جواں سال بھٹو کی شمولیت سے شروع ہوکر جنرل ایوب خان کے وزیرخاجہ کی حیثیت سے استعفیٰ پر ختم ہوتا ہے۔ ایک دہائی پر مشتمل اس دور میں جناب بھٹو سکندر مرزا کو قائداعظم محمد علی جناح سے بڑا عبقری رہنما قرار دیتے ہیں ان کی رخصتی کے بعد تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ وہ جنرل ایوب خاں کو نجات دہندہ قراردے کر ان کی فوجی حکومت کا دست وبا زوبن جاتے ہیں۔ مارشل لا ختم ہوتا ہے توبنیادی جمہوریتوں کے شاہکار نظام کے فلاسفر بن کر نمودار ہوتے ہیں اور فوجی گملے میں پروان چڑھنے والی کنونشن لیگ کے بانی جنرل سیکریٹری قرار پاتے ہیں۔
معاشرتی اور سماجی اقدار کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جنرل ایوب کو ‘‘ڈیڈی’’ کہتے رہے کہ اپنے آپ کو ان رسم و رواج سے بالاتر گردانتے تھے‘جب مادر ملت فاطمہ جناح عوام کی حکمرانی کا علم لہراتے آمر مطلق جنرل ایوب خاں کو چیلنج کرتی ہیں تو متحدہ پاکستان کے تمام عوام دوست اورجمہوریت پسند مادر ملت فاطمہ جناح کے جھنڈے تلے اکٹھے ہوجاتے ہیں کیا دایاں اور کیابایاں بازو، سب نظریات جمہوریت اورعوام کے لئے مادر ملت کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں اور سلطانی جمہور کے خواب دیکھتے ہیںلیکن برہنہ دھاندلی کرکے مادرملت کو ہرا دیا جاتاہے اس صدارتی انتخاب میں جنرل ایوب کے چیف پولنگ ایجنٹ تائیداورتجویز کنندہ کوئی اورنہیں ذوالفقارعلی بھٹو ہی تھے۔ انتخابی مہم کے دوران مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جس طرح کی غلیظ زبان استعمال کی گئی وہ تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے۔65 کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ ہوتا ہے بھارتی وزیراعظم شاستری ‘بھارت کی اس ’’سفارتی فتح‘‘کو برداشت نہیں کر پاتے اور وہیں دم توڑدیتے ہیں جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو ''تاشقند کے رازوں''کی پوٹلی سینے سے لگائے واپس آتے ہیں اورپھر فطرت کے اصولوں کے عین مطابق فوجی آمر کمزورپڑنا شروع ہوجاتاہے ۔وردی وہ کب کی اتارچکا ہوتا ہے اب صرف ''فیلڈ مارشل"کا نام نہاد اعزاز کب تک اس کا دفاع کرتا ۔بھٹو مرحوم کابینہ سے مستعفی ہوگئے اور تاشقند کے رازبے نقاب کرنے کانعرہ لگایا۔ سندھ اور پنجاب بھٹو مرحوم کی ادا ئے قلندرانہ پر نچھاور ہوگئے۔ ایوب خان جاتے جاتے اپنے آئین کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی عبدالجبار خاں کے سپرد کرنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کو بلوا کر نیا مارشل لگوا کر رخصت ہوئے۔ ملک دوبارہ فوجی حکمرانی کی طرف لوٹ گیا بالغ حق رائے دہی کے تحت پہلے عام انتخابات ہوئے مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن عظیم اکثریت لیکر 122 نشتیں جیت گئے جناب ذوالفقارعلی بھٹوکی نوزائیدہ پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان میں 88 نشستیں حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی، جبکہ بلوچستان اوراس وقت کے صوبہ سرحد میں بھٹومخالف اتحادوں نے اکثریت حاصل کی تھی منتخب جمہوری رہنما بھٹو مرحوم کو اکثریتی جماعت عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کو انتقال اقتدار کے لئے ساری توانائیاں صرف کردینی چاہئے تھیں لیکن انہوں نے اس کے برعکس شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار کی منتقلی کے خلاف سازشیں شروع کردیں، ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں اورادھرتم، ادھرہم کے نعرے لگانے شروع کردئیے ۔بھارت موقع کے انتظاراورتاک میں بیٹھا تھا بنگالی قوم پرستی کوعلیحدگی پسندی کی ہوا دی گئی فوجی کارروائی ہوئی اورملک ٹوٹ گیا۔ باقی ماندہ پاکستان میں اقتدار پکے پھل کی طرح بھٹو مرحوم کی جھولی میں آن گرا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا داغ سندھی جاگیردار اوروڈیرے کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑ گیا تھا اورانہوں نے مستقبل میں بھارت سے پنجہ آزمائی کے لئے ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔ محافظ ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو خاموشی سے بلوایا اور تمام وسائل ان کے سپرد کردئیے، اندرون ملک قومی صنعتوں کو تومیانے ‘نجی تعلیمی ادارے تحویل میں لینے جیسے احمقانہ اقدامات کرکے صنعتی اورمعاشی میدان میں پاکستان کی کمرتوڑ کررکھ دی۔
بھٹو مرحوم ووٹ کی طاقت سے ایوان اقتدار تک پہنچے تھے لیکن انہوں نے ووٹ کی حرمت کو پامال کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ان کے چارسالہ مختصر دوراقتدار میں جتنے بھی ضمنی انتخاب ہوئے ہر الیکشن میں دھن،دھونس اوردھاندلی کے نت نئے ریکارڈ قائم کئے گئے لاہور میں تاجپورہ کا الیکشن دھاندلی کی علامت بن گیا۔مخالفین تو کس شمارقطار میں تھے اپنے کارکنوں اورجیالوں کے دماغ درست کرنے کے لئے "دلائی کیمپ"بنائے گئے افتخارتاری اور چودھری ارشاد 5 جولائی 77 کے مارشل لا کے بعد وہاں سے برآمد ہوئے۔ یہ کیمپ آزاد کشمیر میں قائم کیا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے عدالتی دائرہ کار سے باہر تھا۔ شملہ معاہدے کے وقت ساری قوم بھٹو مرحوم کی پشت پرکھڑی تھی حزب اختلاف کے تمام رہنماوں نے نیک تمناؤں اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔ بھٹو مرحوم چاہتے تو اس موقع کو قومی یک جہتی اورجمہوری آدرشوں کو مستحکم بنانے کے لئے استعمال کرسکتے تھے لیکن چونکہ وہ ووٹ کی حرمت اورجمہوری اقدار پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے ان کے مختصر دوراقتدار میں حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے حامی اخبارنویسوں کے ساتھ ساتھ بھی کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ مال روڈ پر اشتراکی دانشورعبداللہ ملک مرحوم اور جناب آئی اے رحمن کے خلاف’’ عبداللہ ملک اور آئی اے رحمن ۔۔صحافت کے دو شیطان‘‘ بینرز لگائے گئے بھٹومرحوم کا زمانہ افراتفری اورماردھاڑ کا دورزوال تھا۔ پنجاب میں اکھاڑ پچھاڑ جاری رہی، رامے، کھر اوردیگر اس کھیل میں مہرے تھے جو بھٹو مرحوم کی اذیت پسندی کا شکار رہے۔
77ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے نئے ریکارڈ قائم کئے گئے بھٹو مرحوم کو بلامقابلہ منتخب کرانے کے لئے لاڑکانہ سے ان کے مدمقابل جماعت اسلامی کے نیک نام رہنما جان محمد عباسی کو اغوا کرکے غائب کردیا گیا کھلے مقابلے میں بھی عباسی مرحوم جیت نہیں سکتے تھے لیکن متکبر اورانانیت پسند جاگیردار بروئے کارتھا اس لئے انتخابات سے پہلے ووٹ کی حرمت کو پامال کیا گیا پھرچاروں صوبوں کے وزرائے اعلی بھی ’’بلا مقابلہ‘‘ منتخب ہوگئے کہ فخر ایشیاکی تقلید ضروری تھی دھاندلی کے خلاف چلنے والی تحریک میں ساری قوم بھٹو مخالف کیمپ میں متحد کھڑی تھی سارے لبرلز اور سیکولرزاس تحریک نظام مصطفی کاحصہ تھے جس کا ذکر گزشتہ دنوں عاصمہ جہانگیر کی وفات پر جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کیا تھا کہ عاصمہ جہانگیر کے والد بھٹو مخالف ، غلام جیلانی ملک تحریک نظام مصطفی میں ہمارے ساتھی تھے، اور تو اور سندھ (لفظ آنا ہے) کرکے داستان گو اعتزاز احسن بھی بھٹو جبر کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کومسکین صورت سمجھ کر آدھ درجن پیشہ ورجرنیلوں پر ترجیح دے کر بھٹومرحوم نے آرمی چیف بنایا تھا جس نے متنازعہ عدالتی عمل کے ذریعے انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچایا تھا 5 جولائی 77 سے بھٹو مرحوم کا تیسرا اورآخری دورشروع ہوتا ہے۔کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے سزائے موت کے بعد رحم کی اپیل کے مرحلے پر بھٹو مرحوم کو آخری اپیل کرنے اور جان بچانے پر قائل کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کی گئیں لیکن اس وقت بزدل صنعت کار نہیں، اناپسند جاگیردار بروئے کار تھا کہتے ہیں کہ ایک سیانے کو بھٹومرحوم نے پوچھا میرے والد کانام کیا ہے اس نے بڑے اچنبے سے بتایا کہ سر شاہنواز بھٹو، اس پر بھٹو صاحب سے دوبارہ استفسار کیا کہ جنرل ضیاکے والد کانام کیا ہے تو وہ صاحب ظاہر ہے ضیائ الحق کے والد کانام نہیں جانتے تھے بھٹو صاحب نے بڑے فخر سے کہا کہ جس کے والد کانام کسی کو معلوم نہیں، سرشاہنواز بھٹو کا بیٹا اس سے رحم کی اپیل کیسے کرے گا۔میں تاریخ کے صفحات میں امر ہوجاوں گا رحم کی اپیل نہیں کروں گا۔ یہ تھا کہ بھٹومرحوم کا اصل چہرہ ایک سندھی جاگیردار کا چہرہ۔ جس کا ووٹ کی حرمت اورجمہوری اقدارسے کوئی تعلق نہیں تھا جومنتخب رہنما تھا لیکن جو ووٹ کو عزت دینے پر یقین نہیں رکھتا تھااور آخری لمحوں میں خاندانی شرف و وقار کا علم بلند رکھتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔
بھٹو مرحوم کی اصل کامیابی یہ ہے کہ ان کے نام پر آج تک سندھ میں حکومت کی جارہی ہے اور مدتوں بعد جماعت اسلامی کا بانکا امیر بھٹو مرحوم کو اپنے لئے رول ماڈل قرار دیتا ہے اس بچارے کو یہ معلوم نہیں کہ رکن قومی اسمبلی درویش صفت ڈاکٹر نذیر شہید کون تھے ؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024