پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی
اشاعت خاص……خالد کاشمیری
ذوالفقار علی بھٹو شہید
٭پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی
٭علمبردار آزادیٔ کشمیر
عظیم سی پیک منصوبہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی قائم پاکستان چین دوستی کا مرہون منت ہے
حریص اقتدار طالع آزما اور سیاستدانوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے بھٹو اور ان کی حکومت ختم کی گئی
………
امر واقعہ یہ ہے کہ بانیٔ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے بعد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید پاکستان کے ایسے سیاسی رہنما تھے جو نہ صرف مدبرانہ صفات کے حامل تھے بلکہ ان کی ٹوٹی پھوٹی اُردو بھی پاکستانی قوم کے دل و دماغ پر نقش ہو جایا کرتی تھی اور جب وہ انگریزی میں خطاب کرتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ خوبصورت پیرائے میں شاعری کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوبصورت استعارے اور تشبیہات سے مزین الفاظ ان کے سامنے قطار اندر قطار ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور وہ انہیں چن چن کر اپنے ماضی الضمیر کی لڑی میں پروتے چلے جا رہے ہوں۔ بھٹو شہید اس لحاظ سے بھی ملکی سیاسی میدان کے ایسے ممتاز شہسوار اور قائد تھے کہ قوم کی ضرورتوں کی روشنی میں ان کے دلوں کی ترجمانی کا فن جانتے تھے ان کی اسی خوبی نے ملک کے ہر اس فرد کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا، جو ملک پر مسلط سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام میں پس رہا تھا اور اس سے متعلق پسماندہ اور محروم طبقے کے کروڑوں خاندانوں کی حالت زار پر توجہ دینے کی سیاستدانوں کو یہ توفیق ہوتی تھی نہ ان سبھی محروم طبقوں میں حصول حقوق کی خاطر سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام اور اس کے بڑے بڑے سرپرستوں کے مقابلے میں آواز بلند کرانے کا حوصلہ دینے کی ہمت بلاشبہ شہید ذوالفقار علی ، ایوب خان کی مارشل لاء کے دوران وفاقی کابینہ میں شامل کئے گئے تھے مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے اسی دوران مختلف حیثیتوں میں بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی فہم و بصیرت کا لوہا منوایا؟ بھٹو شہید فلسفہ تاریخ، عالمی سیاست ، منطق اور پسماندہ اقوام کی صورت حال کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان مغربی سرمایہ دارانہ نظام کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے باعث برطانوی اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی سامراجیت سے سخت متنفر تھے۔ اس کا ثبوت ان کی زندگی کے اسی دور سے ملتا ہے جب انہوں نے ایوب کابینہ سے وزیر خارجہ کی حیثیت سے مستعفی ہو کر ملکی سیاست میں قدم رکھا۔ اور اسی کے نتیجے میں انہوں نے رجعت پسند سیاستدانوں کے برعکس ترقی پسند ممالک کی طرف بند دروازوں کو بھی کھولا۔ ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بھٹو اس بات کے دل سے خواہاں تھے کہ پاکستان اور چین آپس میں دوستی اور بھائی چارے کے رشتے میں مضبوطی سے منسلک ہوں۔ مگر اس سلسلے میں اس وقت کے صدر ایوب خاں نے اپنی کج فہمی کے باعث جناب بھٹو کو ایک آزمائش میں مبتلا کر دیا۔ ہوا یوں کہ 1959ء میں چین کے صوبہ سنکیانگ کو تبت سے ملانے کے لئے وہاں کی حکومت نے لداخ میں ایک سڑک تعمیر کی اس علاقے میں بھارت نے بلاوجہ قبضہ جما رکھا تھا اس لئے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے وزیراعظم چین سے کہا کہ وہ اس علاقے میں مداخلت نہ کریں ورنہ بھارت اس کا جواب دے گا۔ ’’اسی دوران صدر ایوب خان نے اپنے بیرونی ملک دورے کے موقع پر اسی مسئلے پر اخبار نویسوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ لداخ کا معاملہ بھارت کا مسئلہ ہے‘‘ اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر تھے۔ جو بیرونی ملک کے دورے میں ایوب خان کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے بھی لداخ کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کی نزاکت کا احساس نہ کیا ۔ کہ صدر ایوب کے ایسے بیان سے کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کے موقف کو ضعف پہنچتا ہے مگر اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس گتھی کو سلجھایا۔ اور چین بھارت کشیدگی سے فائدہ اُٹھا کر اپنے تعلقات کا چین سے ڈول ڈالا کچھ ہی عرصہ بعد 1960ء میں اقوام متحدہ میں چین کی رکنیت کا معاملہ پیش آیا ۔ تو اس بارے میں امریکہ کی مخالفت کے موقف سے ذوالفقار علی بھٹو نے اختلاف کیا۔ جناب بھٹو اقوام متحدہ میں کسی اعتراض کے بغیر چین کی رکنیت کے زبردست حامی تھے مگر امریکہ نے پاکستان کے وزیر خارجہ منظور قادر سے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اقدام پر اظہار ناپسندیدگی کر رہا تھا۔ اس پر منظور قادر کی طرف سے اقوام متحدہ میں جناب بھٹو کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کی ممانعت کر دی۔ مگر جناب بھٹو نے منظور قادر کے ایسے اقدام کو خاطر نہ لاتے ہوئے انہیں جوابی برقعہ ارسال کیا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ اب حالات 1954ء جیسے نہیں ہیں۔ اب پاکستان کو اقوام متحدہ میں چین کی رکنیت دلانے کے لئے اپنے سابقہ رویے کو تبدیل کرنا ہو گا ’’جب جنوری 1963ء میں بھٹو شہید کو ملک کا وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا تو وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی پاک چین سرحدی معاہدہ کا تاریخ ساز کردار ادا کیا اور اسی معاہدہ کے خلاف بھارت کے معاندانہ پروپیگنڈے کا جواب دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاک چین سرحدی معاہدہ کے تحت مضبوط تر دوستی کی بنیاد پر چین نے 750 مربع میل کا علاقہ پاکستان کو دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر اسی بیان کی روشنی میں چاردانگ عالم میں پاک چین دوستی کے ڈنکے بج گئے۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کی ذاتی مساعی سے پاکستان اور چین کے مابین دوستی ،محبت ، اخوت اور بھائی چارے کا جو رشتہ قائم ہوا تھا اکیسیویں صدی میں ان دونوں دوست ممالک کے مابین ’’پاک چین راہداری کا عظیم الشان منصوبہ اسی رشتے کا مرہون منت ہے۔ جس کی بنیاد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے رکھی تھی۔ اور اسے اپنے عہد وزارت عظمیٰ میں مضبوط تر کر گئے۔
ذوالفقار بھٹو شہید پاکستان کے سیاستدانوں اور مدبروں میں ایک سحرانگیز شخصیت تھے۔ پاک چین دوستی کے معمار تھے۔ خالق آئین کہلانے کا انہیں شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے اپنے عہد وزارت عظمیٰ میں ناقابل فراموش تاریخی اصلاحات کیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے محروم طبقوں میں سیاسی بیداری پیدا کی۔ ذوالفقار علی شہید کی زندگی کے پہلوئوں کا تذکرہ کرنے کے لئے ایک وقت درکار ہے۔
ذوالفقار علی شہید صحیح معنوں میں علمبردارِ آزادی کشمیر تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان سے الفت، عوام سے محبت اور اپنی بے لوث سیاسی خدمات کے صلے میں جو سعادت نصیب ہوئی وہ کسی دوسرے ان کے ہم عصر سیاستدانوں کو حاصل نہ ہو سکی۔ انہوں نے اسلام دشمن اور پاکستان کے بدخواہ عالمی سطح کے سازشی ممالک کو اپنا جانی دشمن بنا کر ارض وطن کو ایٹمی قوت بنانے کے ایسے منصوبے کی بنیاد رکھی جس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ یہ پاکستان کے عوام کا المیہ ہے کہ ان کی غمخواری، حالت زار کے بدلنے سرگرم اور نچلے طبقے میں سیاسی بیداری پیدا کرنے والا رہنما سیاسی میدان کے تعندروں کی سازشوں کا شکار ہو گیا۔
بظاہر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک آمرید میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔
مگر اس عظیم سیاستدان اور مدبر کو ایسے انجام سے دوچار کرانے میں وقت کے سیاستدانوں کی بڑی تعداد بھی اپنے حصے کام کرتی رہی۔ ایسے میں ایسے سیاستدانوں کا شمار ہوتا ہے۔ جو اس وقت کے حریص اقتدار طالع آزما کے پروردہ تھے، جنہیں حصول پاکستان کے مقاصد سے انحراف کرنے والے جمہوریت کے قاتل طالع آزما نے اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر وقت بے وقت استعمال کرنے کے لئے سیاست کے راستے پر ڈالا تھا۔ جنہوں نے اس طالع آزما کے اشارے پر پاکستانی سیاسی میدان کے صاف ستھرے ماحول میں بدعنوانی و بداعمالیوں کی روایات قائم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ طالع آزمائوں کے ایسے ہی سیاست کے میدان میں داخل کئے گئے کاروباری ، تجارتی اور سرمایہ دارانہ نظام میں پلے بڑھے عناصر نے وقت گزرنے پر جمہوری سیاسی اور اخلاقی اقدار کو اپنی ہوس زر و سیم کی پیاس بجھانے کے لئے جس بری طرح پائمال کیا۔ اس سے انسانیت بھی منہ چھپاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس قسم کے عناصر ایوان اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھتے تھے اور ان نام نہاد سیاسی عناصر کے ہمنوا تھے۔ جو بھٹو کو اپنے عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اسیر واقعہ یہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں /3 اور /4 اپریل 1979ء کی درمیانی رات کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو پورے ملک سے صرف ایک سیاستدان نے ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم محترمہ نصرت بھٹو کے نام تعزیتی برقعہ ارسال کیا تھا اور وہ سیاسی رہنما صرف نوابزادہ نصر اللہ خاں تھے۔ جبکہ باقی سیاسی میدان پر مکمل سکوت سا طاری رہا۔ البتہ /24 فروری 1979ء کو جب سپریم کورٹ میں بھٹو شہید کی سزائے موت کے خلاف نظرثانی کی درخواست کی سماعت ہونا شروع ہوئی تو اس دوران دنیا بھر سے مختلف سربراہان مملکت نے وقت کے حکمراں سے سزا روک دینے کی اپیلیں کی گئیں اپیلیں کرنے والوں میں لیبیا کے صدر معمر قذافی، سعودی عرب کے شاہ خالد، جمہوریہ ترکیہ کے صدر فرمی کورو ترک، وزیراعظم ترکیہ بلندایجوت ، امیر متحدہ عرب امارات شیخ زید بن سلطان النیہان، عوامی جمہوریہ چین کے چیئرمین ہواکوتنگ، شام کے صدر حافظ الاسد، مصر کے صدر انوارالسادات، سوڈان کے صدر جعفرالخیری، کویت کے امیر شیخ عیسیٰ بن صالح، قطر کے امیر خلیفہ بن حامد التہامی ، ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی اور سویت یونین روس کے صدر برزنیف شامل تھے۔