بھٹو کی پھانسی کے تین اسباب
فرزانہ چودھری farzanach95@yahoo.com
سابق صدر اور جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب، سابق صوبائی وزیر صحت ، مال، محنت، پاپولیشن پلاننگ ، کوآپریٹو، اشمال ، کالونیز، ریلیف،سیٹلمنٹ اینڈ ری ہیبلیٹیشن اورچیئرمین این آئی آرسی رانا شوکت محمود کا شمار پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے انہوں پارٹی کی ابتداء سے عروج تک سفر دیکھا ہے جس کاوہ عملی طورپر حصہ رہے۔انہوں نے اس سفر کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں بھی کاٹیں۔پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر ا ن سے کی گئی گفتگو نذرقارئین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلزپارٹی کی جتنی زندگی ہے‘ اس کی ابتدا سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو کی وفات تک جتنا بھی عرصہ ہے وہ میں نے بھٹو کے ساتھ گزارا ۔ میں نے بھٹو جیسا شخص‘ سیاستدان اور محب وطن نہیں دیکھا۔ ان جتنا محب وطن اور فوج کا چاہنے والا بھی کوئی نہیں تھا۔ میں یہ واقعات سے ثابت کر سکتا ہوں۔ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ْ۔۔۔
63-64ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے میری پہلی ملاقات ہوئی، میں نے پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس سٹوڈنٹس یونین کے صدر کی حیثیت سے ان کو پنجاب یونیورسٹی سینٹ ہال میںتقریب میں مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔میں تقریب کی صدارت کر رہا تھا۔ وہ جنرل ایوب خان کی گورنمنٹ میں توانائی اور قدرتی وسائل کے وزیر تھے۔ میری تقریر ان کو پسند آئی‘ میں ان کی شخصیت ، ذہانت، قابلیت سے بے حد متاثر ہوا۔ اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ ان کی حیات تک جاری رہا ۔ میری ان سے بہت طویل رفاقت رہی۔ میرے پاس ان کی بہت انمول اور تاریخی یادیں ہیں جومیں سمجھتا ہوں کہ وہ قوم کی امانت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ واحد لیڈر ہے جس نے پاکستان کی غریب اور غیور عوام کو ان کے حقوق کی آگاہی دی۔غریب عوام کے حقوق کا تحفظ کیا۔ تاشقند معاہدہ سے ناراض ہوئے اور حکومت چھوڑ دی۔ میں ان دنوں لاہور ضلع کچہری میں وکالت کر رہا تھا۔ہم چند لوگ حنیف رامے‘ مصطفی کھوکھر‘ ممتاز بھٹو‘ مصطفی جتوئی‘ اور حفیظ پیرزادہ ان کے رابطے میں مسلسل تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹرمبشر حسن کے گھر میں پیپلزپارٹی بنی۔ جھنڈے کا رنگ ہم نے مشورے سے فائنل کیا۔ بھٹوکے دل کی آواز تھی کہ اس ملک کے محروم طبقے کو انکا حق دلانے کے لیے امارات یافتہ طبقہ کنٹرول کرنا پڑے گا۔ بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کی فلاسفی یہ تھی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی بحالی ہو۔ ایسا پہلی بار تاریخ میں ہوا کہ زمینداروں‘ جاگیرداروں کے خلاف مضارعوں نے ووٹ ڈالا۔ یہ ایک انقلاب تھا جس کو میں نے قریب سے دیکھا۔ غریب طبقات بھٹو کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔بھٹو پر‘ پیپلزپارٹی پر بھی یہ بہت بڑا الز م ہے کہ بھٹو نے اپنے اقتدار کیلئے پاکستان کی تقسیم کی، بنگلہ دیش بنا دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش بننے کی وجوہات الیکشن نہیں تھا کیونکہ ملک بنانے کیلئے ایک دو ماہ نہیں بلکہ سالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوامی لیگ کے چھ نکات بذات خود پاکستان کی نفی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگالی عوام وفاق توڑ کر کنفیڈریشن بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ مجیب کا کہنا تھا کہ میں چھ نکات کو چھوڑ کر آئین نہیں بنا سکتا کیونکہ مکتی بانی اور سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے میرا الیکشن لڑا ہے وہ اس بات پر آمادہ نہیں ہیں۔ میں ان کے خلاف نہیں جا سکتا وہ مجھے مار دیں گے۔ بھٹو کی پھانسی عالمی سازش کا نتیجہ ہے جس کی تین بنیادی وجوہات بنیں، ایک پاکستان میں 47مسلم ممالک کی اسلامک سمٹ کانفرنس، دوسرا بھٹو کا پاکستان کو نیوکلئیر پاور بنانے کا دو ٹوک فیصلہ اور تیسراگروپ آف 77 پاکستان کی اکنامک خود مختاری ۔ جب اسرائیل نے لبنان پر قبضہ کرلیااور بیرود پر بم بھاری شروع ہوگئی تو بھٹو صاحب کی کوششوں سے دنیاکے اسلامی ممالک کااگلاسنٹر پاکستان کو بنایا گیا۔ بیرونی طاقتیں چاہتی تھیں کہ بھٹو نہ رہے اور پاکستان دنیا کے اسلامی ممالک کا سنٹر نہ بنے۔ ذوالفقار علی بھٹونے اقوام متحدہ میں گروپ آف 77 بنایا۔ اس میں کچھ امریکہ کی بہت غریب ریاستیں، کچھ افریقہ کی اور کچھ ایشیاء کے ممالک شامل تھے۔ ’’گروپ آف 77‘‘ کا پاکستان پہلا صدر تھا۔ بھٹو اس وقت کی آزاد 47 مسلم ریاستیوںکے وسائل پاکستانی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ان تمام مسلمان ممالک کے سربراہان کے ساتھ ذاتی دوستی بنائی۔ انہوں نے بغیر اعلانیہ بھٹو کواپنا لیڈر مان لیا تھا۔ بنگلہ دیش میں ہونیوالی زیادتیوں کے حوالے سے ساری دنیا میں اور خاص کر مسلم ممالک میں ہمارے خلاف نفرت کی فضا کو مکمل طور پر ڈیفیوز کر دینا بھٹو کا ہی کمال تھا۔ بھٹو نے انٹرنیشنل پاسپورٹ عام کیاتاکہ پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ممالک جا سکیں۔اور وہاں ان کی ملازمتوں کا بندوبست کروایا ۔ اس وقت 27 لاکھ کے قریب پاکستانی مختلف ممالک میں گئے۔ بھٹو کی دی ہوئی اس پالیسی سے آج بھی اس ملک کو فارن ایکسچینج پر ہی چلا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فروری 74فرروریء میں پاکستان لاہورمیں ہونے والی اسلامک سمٹ کانفرنس کا، میں مرکزی آرگنائزر میں سے تھا۔ یہ بہت بڑی اچیومنٹ تھی ۔ مجیب الرحمن اسلامک کانفرنس میں نہیں آ رہے تھے مصر کے صدر انور سادات ایک وفد کے ہمراہ ڈھاکہ گئے اور مجیب الرحمن کولے کر آئے۔ یہ بھٹو صاحب کے بہت بڑے کارناموں میں سے ایک ہے ۔ مجیب الرحمن کے ساتھ کانفرنس کے دوران دو مواقع پر میری بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا ’’کاش بھٹو صاحب کی بات مان کر ایک آئین بنا لیتے تو ملک نہ جاتا‘‘ پھر خود ہی بولے کہ نہیں فوج ایسا آئین نہ بننے دیتی۔ فوج حکمرانی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ میری بات یاد رکھنا پاکستان میں فوج ہی حکمران رہے گی۔ اس کو اقتدار کا چسکا لگ گیا ہے ۔ مجیب الرحمن پشمان تھے کہ بنگلہ دیش نہیں بننا چاہیے تھا ۔ اس کانفرنس نے پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کو عالم اسلام کے مشترکہ رہبر کا مقام و مرتبہ دلا دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھٹو صاحب دنیا بھر میں مظلوم مسلمان اقوام کی تقدیر بدلنے کے خواہشمند تھے بھٹو نے امریکہ جیسی سپر پاور کے علاوہ بھارت، بنگلہ دیش اور اسرائیل کی مخالفت مول لے کر انتہائی جرأت مندانہ اقدام کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19 مئی 1974ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام پر عملدرآمد کو تیز کرے گا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو انتباہ کیا پاکستان فرانس کے ساتھ ری پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری کے سمجھوتے سے دستبردار نہ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کی بھیانک مثال بنا دیا جائے گا مگر اگلے دن ہی ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ فرانس کے ساتھ ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کا منصوبہ منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اگر آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے تو یہ کریڈٹ ذوالفقار علی بھٹو کا ہے۔ جس نے اپنی جان اور اقتدار کی پراہ کیے بغیر امریکہ کو دو ٹوک جواب دیا۔ اور کہا کہ وہ ملکی مفاد کا سودا نہیں کریں گے۔ ہنری کسنجر کی واپسی کے فوری بعد امریکہ کی بھٹو صاحب کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں انہی دنوں قومی اتحاد کا قیام عمل میں آیا اور ملک میں یکایک ایجی ٹیشن کی فضا قائم ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھٹو صاحب پاکستان کے مرّبی ہیں ان کے ذہن میں پاکستان کو بین الاقوامی دنیا اور خصوصی طور پر عالم اسلام میں سربلند کرنے کے لیے جامع پلان تھا۔ وہ پاکستان کو دنیا ئے عرب کا مستحکم مرکز و محور بنانا چاہتے تھے۔ وہ پاکستان کی باصلاحیت افرادی قوت اور عالم اسلام کی بے پناہ دولت کو یکجا کرکے پاکستان کو ایک خوشحال اور ممتاز ملک بنانے کے خواہاں تھے۔ ایٹم ان کے پروگریسو تھیسز کا جزولاینفک تھا ۔