پاکستان میں بھٹوز کا خاتمہ ناممکن ہے
تحریر فروغ مرغوب صدیقی
بر صغیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بھٹو خاندان کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ بھٹو شہید کے والد سرشاہنواز بھٹو 08مارچ 1888 کو پیدا ہوئے اور ان کی وفات 19نومبر 1957 کو ہوئی۔ ان کے گھر میں تین بیٹے پیداہوئے ، امداد علی بھٹو، سکندرعلی بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو۔ اُن کی ایک بیٹی ممتاز صاحبہ بھی تھیں۔ سر شاہنواز بھٹو 15اگست 1947 کو ریاست جونا گڑھ کے دیوان (وزیر اعظم) منتخب ہوئے اور 13ستمبر 1947 کو ریاست جوناگڑھ نے شاہنواز بھٹو کی قیادت میں پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ جسے قائد اعظم نے خوشدلی سے قبول کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ خورشید بیگم (لکھی بیگم) ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسی وجہ سے بھٹو خاندان میں غریب اور محنت کشو سے محبت فطری طور پر موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیگم کا نام امیر بیگم تھا۔ جس سے اُن کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے بعد انہوں نے دوسری شادی محترمہ بیگم نصرت بھٹو سے کی۔ جو ایرانی نسل و نسب سے تعلق رکھتی تھیں۔
اس خاندان کی گزشتہ ایک صدی میں چار نسلیں ملک کی سر براہی حاصل کر چکی ہیں۔ اور اب پانچویں پشت بلاول بھٹو کی شکل میں پسماندہ طبقات کی نمائندگی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے تیار ہیں۔ یہی خاندان ہے جس نے سب سے زیادہ قربانیاں یعنی شہادتیں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ نواز بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر کی شکل میں دیں عوام ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہمیشہ ہم آواز تھے۔ بھٹو جس نے جاگیر داری اور سرمایہ داری کے نظام پر کاری ضرب لگائی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھٹو نے اقتدار میں آنے کے بعد زرعی اصلاحات کیں۔ پنجاب اور سندھ میں کسانوں کو ساڑھے بارہ ایکڑ زمینوں کا مالک بنایا اور بلوچستان میں سرداری نظام ششک کو ختم کیا۔ 1970کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا ہی خاصہ تھی۔ بھٹو نے اس الیکشن میں پانچ حلقوں سے کامیابی حاصل کی۔ اس دوران پاکستان دشمنوں نے ملک پر ایک بڑی جنگ مسلط کر دی ۔ اس دوران بھٹو نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا دوسری جانب ہمارے حکمران غیر ملکی اقوام کے ہاتھوں کٹ پتلیاں بنے رہے۔ وطن دولخت ہو گیا۔ صرف 6برس پہلے(1965)میں بھارت سے جنگ میں فتح حاصل کرنے والی افواج کو دنیا بھر میں رسوا کر وایا گیا۔ وقت کے شکست خوردہ حکمرانوں کے پاس استعفیٰ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ سے بلایا گیا اور 20دسمبر 1971کو اقتدار ان کے حوالے کیا گیا۔ پاکستان تاریخ کے شدید ترین بحران سے گزر رہا تھا۔ جنگ میں شکست کے سبب تمام ادارے مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ شکست نے قوم کے ارادوں کو بھی شکست خوردہ کیا ہوا تھا۔ پاکستان کے96ہزار فوجی اور سول دشمن کی قید میں تھے۔ پاکستان کا 5000مربع میل کا علاقہ بھارت کے قبضے میں تھا۔ 12لاکھ سے زائد افراد جنگ کی تباہ کاریوں میں بے گھر ہو چکے تھے۔ بھٹو نے اس موقع پر قوم کا مورال بلند کیا۔ فوج کی تنظیم نوکی۔ فوج کے 3شعبوں کا ایک مشترکہ ہیڈ کوارٹر قائم کیا تاکہ ان میں ہر موقع پر ہم آہنگی ہو۔ اس کا نام جوائنٹ چیف آف اسٹاف ہیڈ کوارٹر رکھا گیا۔ بھارت سے شکست کے بعد بھٹو نے6ڈویژنز فوج نئے سرے سے قائم کی۔ بھٹو نے ایک کریش پروگرام کے تحت مختلف ممالک سے اسلحہ حاصل کیا۔ جن میں200طیارے بھی شامل تھے۔ جس سے وطن کے دفاع کو نئی طاقت حاصل ہوئی۔ بحریہ میں بھی فضائی شعبہ شامل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھٹو نے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے فرانس سے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کامعاہدہ کیا۔ جسے بعد میں جنرل ضیاء نے منسوخ کر دیا۔ بھٹو کے کئی بڑے کارناموں میں سے چند یہ ہیں، کہوٹہ اٹامک پلانٹ ،کراچی اٹامک انرجی پاور پلانٹ ، چشمہ اٹامک پاور پلانٹ پاکستان سٹیل مل، ٹیکسلا ہیوی مکیکل کامپلیکس، کا مراہ ایرو ناٹک کمپلکس اور آرڈینس فیکٹری جیسے کئی اداریوںکی بنیادیں رکھنا شامل ہیں۔ بھٹو کے باوفا ساتھیوں جن کے ساتھ انہوں نے یہ سب کارنامے سر انجام دیئے ان میں ڈاکٹر مبشر حسن ، رفیق احمد شیخ ، ملک معراج خالد، معراج محمد خان حیات محمدشیرپائومخدوم طالب المولا حنیف رامے، مصطفی کھر، شیخ محمد رشید اور میاں محمود علی قصوری جیسے لوگ شامل ہیں۔
بھٹو نے دفاع اور خارجہ امور کے شعبوں میں خاص خدمات انجام دیں۔ جنگی قیدیوں کے مسئلے پر بھٹو بھارت سے ابتدائی گفتگو کے بعد28جون 1972کو شملہ روانہ ہوئے بھارت میں جنگی قیدیوں پر انسانیت سوز سلوک سے نجات کیلئے اندرا گاندھی سے مذاکرات کیے۔ پاکستان کی پوزیشن اس موقع پر انتہائی کمزور تھی۔ اس دورے میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی قائد عوام کے ہمراہ تھیں۔ ہاری ہوئی جنگ کے بعد مذاکرات آسان نہ تھے۔ شہید بھٹو نے دلائل سے مذاکرات میں کامیابی حاصل کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2جولائی1972کو شملہ معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ جس سے96ہزار جنگی قیدی اورمغربی پاکستان کا 5000مربع میل علاقہ پاکستان نے دوبارہ حاصل کر لیا۔ بھٹو شہید نے خارجہ پالیسی کو از سر نو ترتیب دیا۔ اور دبائو سے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی۔ بڑے ممالک سے تعلقات کی استواری اور دوست ممالک سے بہترین رشتوں کی بنیاد رکھی۔ اور بیرون ملک پاکستان کے کھوئے ہوئے وقار کی بحالی کی ابتداکی۔ بھٹو نے کئی فوجی معاہدے کیے۔ سیٹو سے علیحدگی ، سابقہ مشرقی جرمنی عوامی جمہوریہ کوریا، ویتنام، گنی سائو، اور کمبوڈ یا کو تسلیم کرنا اسی پالیسی کا تسلسل تھا۔ بھٹو نے دنیا بھر میں پاکستان کے سفارتی مراسم کی بحالی کیلئے ذاتی تعلقات بھی استعمال کیے۔ فرانس کے صدر دستاں نے درست ہی کہا تھا کہ بھٹو نے نیپولین اور ریمانند کا عالمی توازن کا تصور اپنایا۔ اور بڑی مہارت سے دنیا کے سامنے پیش کر کے منوایا بھی۔ بھٹو اقتدار سنبھالنے کے بعد20ممالک کے ہنگامی دورے پر روانہ ہوئے اور مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دینے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا۔
بھٹو شہید 31جنوری1972کو عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر پہنچے تو ان کا تاریخی اور والہانہ استقبال کیا گیا۔ چین نے اس موقع پر پاکستان کو بڑے پیمانے پر فنی، اقتصادی اور فوجی امداد دینے کا اعلان بھی کیا۔ دوسری جانب بھٹو شہید مارچ1972میں سو ویت یونین کے دورے پر بھی تشریف لے گئے اور سوویت یونین کے صدر لیکسی کو سی جن سے انہوں نے عالمی حالات کے تناظر میں مذاکرات کیے اور وہ روس سے بھی تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جس کے بعد دسمبر1973میں روس نے پاکستان میں ایشیا کی سب سے بڑی سٹیل مل کی بنیاد رکھی جسے آج کے کاروباری حکمران پی آئی اے کے ساتھ مفت دینے کے لیے تیار ہیں وہ بھی اپنے کسی پارٹنر کو۔ بھٹو نے ستمبر1973میں امریکہ کا دورہ بھی کا۔ یہ دورہ بھی اس قدر کامیاب رہا کہ امریکہ کے صدر نکسن نے پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی کا اہم جزو قرار دیا۔ اس کے بعد مئی1975میں شہید وزیر اعظم نے امریکہ کا دوبارہ دورہ کیا۔ اس دورے میں صدر جبرالڈ فورڈ اور نائب صدر راک فلر سے ملاقات ہوئی راک فلر نے بھٹو کے اعزاز میں استقبالیہ دیا۔ جس میں انہوں نے بھٹو کو عظیم مد برقرار دیا۔ یہ بھٹو ہی تھا جس کو امریکی صدر نے کہا کہ اگر بھٹو امریکی ہوتے تو وہ میری کابینہ کے ممبر ہوتے۔ بھٹو نے برجستہ جواب دیا تو اگر میں امریکی ہوتا تو امریکہ کا صدر ہوتا۔ بھٹو کبھی بھی کسی سے بات کرنے کے لیے جیب میں لکھی ہوئی پرچیاں نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ وہ تو اکثر لکھی ہوئی تقریر پھاڑ کر پھینک دیا کرتے تھے۔ بھٹو نے افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ بڑھایا۔ 1976میں امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہینری کیسنجر کے دورہ افغانستان اور چین کا اہتمام بھی کیا۔ اس لیے برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ایوٹ اوون نے کہا کہ یہ بھٹو کا خارجہ پالیسی کی سطح پر کارنامہ ہے کہ روسی افواج کو افغانستان سے نکلنا پڑا۔ بھٹو کا ایک بڑا کارنامہ پاکستان کو ایک متفقہ آئین دینا بھی ہے۔ جس پر تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا اتفاق رائے تھا۔ جس پر آج 44سال گزرنے کے بعد بھی عمل کیا جاتا ہے۔قومی اسمبلی نے مئی1973میں اس آئین کو منظور کیا تھا۔ یہ آئین جمہوریت ، اسلام اور ترقی پسندی کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ 22سے24فروری1974میں بھٹو نے اسلامی ممالک کو اکٹھا کیا۔ قدرتی وسائل اور ہنر مندی سے مالا مال اسلامی ممالک کی سربراہی کا نفرنس منعقد کی۔ جس کا بنیادی مقصد اپنا اقتصادی ، سیاسی فورم بنانا اور بنک قائم کرنا تھا۔ جس سے ان ممالک کی ترقی اور خوشحالی کے راستے کھلنا تھے۔ اور یہ ہی نقطہ بھٹو کے قتل کا سبب بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ 5جولائی1977کو ضیاالحق نے مارشل لاء کا نفاذ کر کے کیا۔ دنیا کے جھوٹے ترین مقدمے میں ان کو ملوث قرار دلوا کر قتل کر دیا گیا۔ بھٹو کی زندگی کا سفر5جنوری 1928کو شروع ہوا اور4اپریل1979کو ختم کر دیا گیا۔ بھٹو دنیا کے وہ واحد سیاستدان تھے جنکے خلاف کئے جانے والے جھوٹے مقدمے پر احتجاج کرتے ہوئے22سے زائد پارٹی کارکنوں نے خود سوزی کی۔ جن میں مسلمانوں کے علاوہ 3کرسچن پارٹی کارکن بھی شامل تھے۔ ضیاء الحق نےPPکے سیاسی عمل کو روکنے کیلئے80ہزار سے زائد پارٹی کارکنوں کو کوڑے مار ے۔ 1لاکھ 20ہزار سے زائد کارکنوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سینکڑوں کارکن دوران احتجاج یا دوران قید قتل کر دئیے گئے۔ پورا ملک ٹارچر سیل بنا دیا گیا۔ اس دوران مارشل لاء کی فسطائیت نے کئی گناہ بھی کئے جن میں سے ایک بڑا گناہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں انتہا پسند گروپ پیدا کئے ۔ قوم میں انسانیت کا زہر پیدا کیا گیا۔ فرقہ واریت کو عروج دیا گیا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں اسلحہ اور منشیات پکڑا دی گئیں۔
٭٭٭٭٭