بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سیماب صفت وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ واحد کرشمہ ساز پاکستان سیاستدان ہیں جن پر غیر ملکی دانشوروں تاریخ دانوں‘ قانون سازوں اور تبصرہ نگاروں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کی یہ کتا بیں اور تحریریں غالب طور پر بھٹو صاحب کی سیا ست فکر و فراست‘ انداز حکمرانی اور کسی حد تک ان کی عمومی مجلسی زندگی کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ لکھنے والوں کی اس طویل فہرست میں اسٹینلے‘ والپرٹ‘ ریمزے کلارک اوریانا فلاچی وکٹوریہ اسکو فیلڈ طارق علی روبرٹ لاپورٹ جونیئر، مناکشی گوپی ناتھ، ایس این کوشک، دلیپ مکرجی اور کئی دوسروں کے علاوہ بھٹو صاحب کے زمانہ طالب علمی کے ساتھی پارسی دانشور پارلیمینٹرین پیلو مودی بھی شامل ہیں۔ ان کی کتاب ’’زلفی- مائی فرینڈ‘‘ کے دوسرے باب میں زیادہ تر بھٹو صاحب کی کرکٹ میں دیوانہ وار دلچسپی اور اس زمانے کے صف اول کے کرکٹ کے کھلاڑیوں مشتاق علی عبدالحفیظ کاردار گل محمد، سی- ٹی سروتے، بی بی بینمباکر کو اور صحافی کمنٹیٹر عمر قریشی سے ان کی دوستی کے تذکرے ہیں۔ شاید کرکٹ سے یہی دلچسپی اور لگن بھٹو دور حکومت میں سپورٹس کی وسعت پزیری اور خصوصاً کرکٹ کے فروغ کی خاطر ان کی کاوشوں میں کارفرما رہی ہے۔پیلو مودی بمبئی کے مشہور و مقتدر پارسی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ بھارتی سوتنترا پارٹی کے صدر بھی ہوئے پارلیمینٹری بھی بنے اور شملہ سمجھوتے کی کامیابی میں ان کا پس پردہ کردار بھی تھا۔ مودی‘ بٹھوو و ستی کی اہمیت کا اس حقیقت سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشہور امریکی مصنف اسٹینلے والپرٹ نے اپنی شہرت یافتہ کتاب ’زلفی بھٹو آف پاکستان‘ ہنرلائف اینڈ ٹائمنر‘ پیلو مودی، خالد شمس الحسن اور ارد شیر کا و س جی کی یاد کے نام کیا ہے۔ بھٹو اور پیلو مودی کی دوستی میں کرکٹ بڑی قدر مشترک تھی۔ مودی لکھتے ہیں کہ زلفی کو کرکٹ سے بے حد لگاؤ تھا اور کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑیوں سے ان کی دوستی تھی۔ ہندوستانی کرکٹ کے اس دور میں و بے مرچنٹ وینومنکڈ، وجے ہزارے، مشتاق علی، لا لا امر ناتھ، عبدالحفیظ کاردار، رسی مودی، گل محمد اور نواب پٹودی بڑے کھلاڑیوں میں شمار کئے جاتے تھے عوام الناس میں مشتاق علی کو بیٹنگ میں ان کی استعداد اور جارحانہ اسٹروک پلے کے باعث بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا۔مشتاق علی بھی بھٹو صاحب کی صلاحیتوں کے بڑے معترف اور ان کے بہت قریبی دوست تھے۔ سن 1946ء میں وہ رانجی ٹرافی کا میچ کھیلنے کلکتہ گئے۔ سی ٹی سروتے، بی‘ بینمبالکر اور ذوالفقارعلی بھٹو ان کے شریک سفر تھے ان لوگوں نے ہزاری باغ میں ایک میچ بھی کھیلا۔ سن 1955-1956 میں سیلاب زدگان کے لیے کراچی جم خانہ میں فنڈریزنگ میچ کھیلا گیا۔ اس میچ میں مشتاق علی اور آسٹریلیا سے مشہور آل راؤنڈر کیتھملر بھی شریک ہوئے دونوں کی ذوالفقار علی بھٹوسے کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔کپتان عبدالحفیظ کاردار نے اپنی memoirs of all rounder میں بھٹو صاحب کو کرکٹ کا سکالر قرار دیا ہے انہیں کرکٹ کی تاریخ کی باریک ترین تفصیلات کا بھی علم تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ کرکٹ کے کھیل میں تیسری وکٹ کا کب اور کیوں اضافہ ہوا ہے اور سائیڈ سکرین کی تنصیب کے محرکات کیا تھے۔بھٹو کی کاردار سے دوستی قدیمی بھی تھی اور بہت قریبی بھی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی کی ٹیم بمبئی کے دورے پر گئی۔ وہاں کاردار کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ بھٹو صاحب سندرکلب بمبئی سے کھیلتے تھے اس کلب کے کپتان انور حسین پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے نائب کپتان بھی ہوئے۔ انور حسین ایک طویل عرصے تک کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے بھی کپتان رہ چکے ہیں۔ سندر کلب کا گراؤنڈ کرکٹ کلب آف انڈیا سے متصل تھا۔ بھٹو صاحب اس زمانے میں سندر کلب گراؤنڈ پر مشتاق علی اور و ینومانگڈ سے کو چنگ لیا کرتے تھے۔عبدالحفیظ کاردار کا خیال ہے کے اگر ذوالفقار علی بھٹو تعلیم کے لیے امریکہ کے برکلے یونیورسٹی میں جانے کی بجائے آکسفورڈ انگلستان میں داخلہ لیتے تو شاید وہ انگلستان ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے کیونکہ برکلے کی تین سالہ تعلیم کے دوران ان کی زندگی کا رخ سیاست کی طرف مڑ گیا۔ وہ رچرڑ نکسن کی انتخابی مہم میں شریک رہے اور یونیورسٹی کے تقریری مقابلوں میں بھی امتیازی طور پر حصہ لیا۔کاردار نے ذوالفقار علی بھٹو کی کرکٹ میں گہری دلچسپی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے حفیظ پیرزادہ کے ذریعے مجھے اس بات پر آمادہ کر لیا ہے کہ میں پاکستان کی کرکٹ کی تنظیم نو اور اس کی ترقی کی خاطر کرکٹ کنٹرول بورڈ B.C.C.P کی صدارت سنبھال لوں ان کی ہدایت پر قذافی سٹیڈیم جو پنجاب گورنمنٹ کی ملکیت تھا B.C.C.P کے حوالے کر دیا گیا اور اس طرح ملک کے اس خوبصورت ترین سٹیڈیم میں کرکٹ کا صدر دفتر قائم ہو گیا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو قومی تعمیر کے ضمن میں کھیلوں کے کر دار کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے رفقاء میں عبدالحفیظ کاردار، عمر قریشی، عبدالحفیظ پیرزادہ، رفیع منیر، عبدالستار گبول، ائیر مارشل نور خان، جمیل نشتر جیسے لوگ شامل تھے۔ جنہیں قومی تعمیر نو کے ضمن میں کھیلوں کے فروغ کا بھرپور ادراک تھا۔ بھٹو چاہتے تھے کہ پاکستان کھیلوں کے حوالے سے بھی اقوام عالم میں صف اول میں شامل رہے۔ میونخ اولمپکس میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کو سیمی فائنل میں شکست دی تو بھٹو نے بے ساختہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔ فائنل میں پاکستان کو شکست ہوئی (یا ہرا دیا گیا) اور پھر بعض کھلاڑیوں کے جذباتی ردعمل کے باعث پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر کے نام جو پیغام بھیجا وہ حکومتی سطح پر جرأت مندانہ سرپرستی کا شاہکار ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ وہ ابتدا سے اختتام تک اس میچ کو دیکھتے رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ ہم میچ نہیں ہارے۔ یہ بلاشبہ پاکستان کی فتح تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے چار برس سرد ہوا کی طرح گزاریں گے اور پاکستان اس کھیل میں وہ مقام پھر حاصل کر لے گا جس کا وہ بجا طور پر حقدار ہے۔نومبر 1972ء میں پاکستان ٹیم کے سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر روانگی کے موقع پر بھٹو صاحب نے اپنے پیغام میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ ٹیم کے ہر رکن کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بات کا احساس ہے کہ پوری قوم انہیں دورے پر بھیج کر بڑی قربانی دے رہی ہے اور وہ اس لئے آپ سے بہترین کارکردگی کی توقع رکھتی ہے کیونکہ آپ صرف کھلاڑی ہی نہیں بلکہ پاکستان کو دنیا میں ایک قوم، ایک ملک اور ایک طرز معاشرت کے طور پر پیش کریں گے۔ ٹیم کی کارکردگی اور اس کی بہتری پر میری توجہ رہے گی۔اس حقیقت سے کسی طور پر بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو دور میں پاکستان میں کھیلوں اور خصوصی طور پر کرکٹ کے فروغ، کھیل کی سرپرستی اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے بہت بڑے بڑے اقدامات کئے گئے تھے جو آج بھی بارآور ثابت ہو رہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024