کالعدم تنظیموں کے ساتھ روابط پر 105 سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم....سکیورٹی اداروں کو اپنی صفوں میں موجود سکیورٹی لیپس پر بہرصورت قابو پانا چاہئے
حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں شامل ایک سو سے زائد سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا ہے۔ ان اہلکاروں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ ان کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ان اہلکاروں کی نشاندہی خفیہ اداروں نے وزارت داخلہ کو بھجوائی گئی اپنی رپورٹ میں کی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک اہلکار نے اس سلسلہ میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ 105 سرکاری اہلکاروں کے خلاف کارروائی ہو گی جن میں پولیس کے علاوہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار بھی شامل ہیں جن کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ مبینہ روابط کے باعث ان تنظیموں کے خلاف سکیورٹی اداروں کی کارروائیاں موثر ثابت نہیں ہوتیں۔ ان 105 اہلکاروں میں پنجاب کے 29، خیبر پی کے، کے 30، سندھ کے 21 اور بلوچستان کے 14 اہلکار شامل ہیں۔ جبکہ ان میں سے گیارہ کا تعلق ایف سی سے ہے جو مختلف اضلاع میں تعینات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان تمام اہلکاروں کے بارے میں ان کے آبائی علاقوں سے بھی معلومات اکٹھی کی گئی ہیں۔ یہ اہلکار کانسٹیبل سے انسپکٹر تک کے رینک کے ہیں جن میں زیادہ تعداد ان اہلکاروں کی ہے جو سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور ہیں۔ علاوہ ازیں جن اہلکاروں کی سرکاری ”واکی ٹاکی“ گم ہو گئی ہے ان کے خلاف بھی کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق کالعدم تنظیموں کے پاس ایسے آلات بھی موجود ہیں جن کی مدد سے وہ پولیس کنٹرول کے ذریعے ہونے والی گفتگو سن سکتی ہیں۔
دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں بالخصوص ہماری سیکورٹی فورسز کو جتنا بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے وہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار سکیورٹی اداروں کے لئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ اگر سکیورٹی کے ادارے اور ان سے وابستہ اہلکار خود ہی محفوظ نہیں ہوں گے تو ان سے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دینے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے سکیورٹی فورسز کی جانب سے اپریشن شروع کیا گیا تو اس کے ردعمل میں سکیورٹی کے اداروں کو یکے بعد دیگرے دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا جبکہ وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کی وارداتوں میں اب تک 15 ہزار کے قریب سکیورٹی اہلکاروں اور افسران کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ کوئی ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنے سکیورٹی اہلکاروں کے اتنے بھاری جانی نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جبکہ بدقسمتی سے یہاں جی ایچ کیو بھی دہشت گردی کی واردات سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ اسی طرح مہران نیول بیس، کامرہ ائر بیس، نیول ہیڈ کوارٹر اور ایف آئی اے کے دفاتر میں بھی نہ صرف سکیورٹی اہلکار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے بلکہ مہران اور کامرہ ائربیس پر تو سکیورٹی اداروں کو اربوں روپے مالیت کے اواکس طیاروں کی تباہی کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ جی ایچ کیو راولپنڈی میں دہشت گردی کی واردات اس حوالے سے بھی انتہائی تشویشناک تھی کہ اس واردات میں شریک دہشت گردوں نے اعلیٰ سکیورٹی حکام کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ ان سکیورٹی اداروں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کے بارے میں مختلف ایجنسیوں کی جانب سے کی گئی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹوں میں اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ دہشت گردوں کو ان اداروں کے اندر سے معاونت حاصل ہوئی ہے۔ ان سکیورٹی اداروں میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں کی گئی تحقیقات کی حتمی رپورٹیں بھی وزارت دفاع، وزارت داخلہ اور متعلقہ اداروں میں موجود ہوں گی جبکہ ایک سکیورٹی ادارے کے بعد دوسرے ادارے میں دہشت گردوں نے اندر داخل ہو کر واردات ڈالنے سے بادی النظر میں اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ سکیورٹی اداروں کے اندر موجود سکیورٹی لیپس پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش دہشت گردی کا نشانہ بننے کے بعد بھی نہیں کی گئی۔
اگر سکیورٹی فورسز کی جانب سے شروع کی گئی دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کی بنیاد ہی کمزور ہو گی اور سکیورٹی اداروں کو اپنے اندر سے ہی نقب لگ رہی ہو گی تو پھر دہشت گردوں پر قابو پانا اور ان کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہمارے لئے خواب ہی بنا رہے گا۔ دہشت گردی کی وارداتیں ڈرون حملوں اور فوجی اپریشن کے ردعمل میں ہو رہی ہیں، فرقہ واریت کی بنیاد پر دہشت گردی کی وارداتوں میں بے گناہ انسانوں کا بے دریغ خون بہہ رہا ہے یا دہشت گردی کی بعض وارداتوں کا پس منظر کچھ اور ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑا ہے جبکہ حکومت و مملکت کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والے سفاک دہشت گردوں کے ہاتھوں ملک کی سلامتی بھی سخت خطرات کی زد میں ہے چنانچہ دہشت گردی کے خاتمہ کے چیلنج میں سرخرو ہونا اس وقت ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ اگر دہشت گردی کے خاتمے کے ذمہ دار سکیورٹی اداروں میں ہی سکیورٹی لیپس موجود ہوں گے اور ان پر دہشت گردی کے لئے ان کی صفوں میں سے ہی مخبری ہو رہی ہو گی تو پھر اپنا بھی تحفظ نہ کر پانے والے اداروں سے عام شہریوں کے تحفظ کے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اس تناظر میں تو دہشت گردوں کے حوصلے ہمارے سکیورٹی اداروں کی کمزوریوں کی وجہ سے ہی بلند ہوئے ہیں اور انہیں ملک کے کسی بھی حصے میں آزادانہ کھل کھیلنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے سابق حکمران تو دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر آخری دہشت گرد کے مارے جانے تک یہ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کرتے رہے ہیں جبکہ ہماری عسکری قیادتیں بھی دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پرعزم نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود عام شہریوں کے علاوہ کہیں نہ کہیں سکیورٹی ادارے اور اہلکار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں تو پھر سکیورٹی اداروں کو پہلے اپنی صفیں درست کرنا ہوں گی اور نیچے سے اوپر تک اپنے تمام اہلکاروں کی مکمل چھان پھٹک کرکے سکیورٹی اداروں میں موجود کالعدم تنظیموں کے رابطوں کو توڑنا اور انہیں اپاہج بنانا ہو گا تاکہ وہ سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے کے لئے اپنے آئندہ کے عزائم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اسی طرح دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں متعلقہ ایجنسیوں کی جانب سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں موصول ہونے والی رپورٹوں کا فول پروف ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر سکیورٹی اداروں کے اندر سے ہی دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کو ان کے خلاف ممکنہ اپریشن کی اطلاعات فراہم ہوتی رہیں گی جیسا کہ وزارت داخلہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے تو پھر دہشت گردوں کی سرکوبی کرکے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا کسی صورت ممکن نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ میں پشاور کے علاقے بڈھ بیر میں شدت پسندوں کا گذشتہ روز واپڈا گرڈ سٹیشن پر حملہ بھی سکیورٹی کے اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے جس میں پیپکو کے چار انجینئر اغوا کرکے پورے گرڈ سٹیشن کو تباہ کیا گیا۔ اگر دہشت گرد آج بھی راکٹ میزائل اور دوسرا جدید بھاری اسلحہ لے کر سرکاری تنصیبات میں داخل ہو رہے ہیں جن کی روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں تو پھر 11مئی کے عام انتخابات کے لئے امن و امان کی بحالی کا ایجنڈا رکھنے والے نگران حکمرانوں کو سکیورٹی اداروں کے معاملات کی بھی ضرور چھان بین کرنی چاہئے کیونکہ دہشت گردوں کے لئے کھلی چھوٹ کا تاثر دینے والے موجودہ ماحول میں نگران حکمرانوں کے دعوﺅں کے باوجود انتخابات کا پرامن انعقاد ممکن نہیں رہے گا۔