گزشتہ شام ایوان صدر میں وفاقی نگران کابینہ کی تقریب حلف برداری کا ماحول بجھا بجھا اور پھیکا تھا۔ ایوان صدر کے معروف ہال میں بڑی تعداد میں مہمانوں کی آمد متوقع تھی۔ بیورو کریسی‘ سابق ارکان پارلیمنٹ‘ سینیٹروں‘ اعلیٰ فوجی حکام‘ سفارت کاروں کےلئے نشستیں مخصوص تھیں اور ان پر ہر مہمان کے نام کی پرچی بھی چسپاں تھی‘ لیکن خلاف معمول مہمان کم تعداد میں آرہے تھے۔ جب تقریر حلف برداری میں چند منٹ باقی تھے تو ایوان صدر کے پروٹوکول کے عملہ نے صحافیوں سے عقبی نشستوں سے اٹھ کر انہیں سامنے والی نشستوں پر بیٹھنے کی درخواست کی۔ حلف برداری کی تقریب میں ساٹھ سے زیادہ صحافی مدعو کئے گئے تھے۔ اچھا ہوا کہ اتنی بڑی تعداد میں موجود صحافیوں نے ایوان صدر کی پریشانی ختم کر دی۔ سارے صحافی اپنی عقبی اور کونے کھدرے میں رکھی گئی نشستوں سے اٹھ کر فرنٹ سیٹوں پر آگئے جس سے خالی کرسیاں بھر گئیں‘ ورنہ کیمرہ مین خالی نشستیں دکھانے پر مجبور ہوتے۔
حلف برداری کی تقریب میں بعض اہم مہمانوں کی عدم موجودگی کو محسوس کیا گیا اور ان کی عدم موجودگی پر چہ میگوئیاں بھی ہوتی رہیں۔ اس تقریب میں مسلح افواج کے سربراہ موجود نہیں تھے جو عمومی طور پر اس طرح کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیںجو دوسری نمایاں شخصیات تقریب میں نہیں تھیں ان میں قومی اسمبلی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا‘ چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری‘ دارالحکومت میں موجود سینیٹرز اور وفاقی سیکرٹری بڑی تعداد میں شریک نہیں ہوئے۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ‘ سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی‘ سیکرٹری اطلاعات اور ایک آدھ اور سیکرٹری اس تقریب میں موجود تھے۔ سینیٹروں میں سے صرف سینیٹر عاصم حسین تقریب میں شریک ہوئے۔ صحافیوں کو توقع تھی کہ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک تو ضرور اس تقریب میں شرکت کریں گے لیکن وہ بھی نہ آئے‘ شاید وہ نئے نگران وزیر داخلہ حبیب ملک کو وزارت داخلہ کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی تاب نہیں لا سکتے تھے۔
ابتدا میں جب صحافی تقریب حلف برداری والے ہال میں داخل ہوئے تو وہاں نگران وزراءکے لئے پندرہ کرسیاں موجود تھیں لیکن پھر اچانک ایک کرسی ہٹا دی گئی۔ استفسار پر پتہ چلا کہ یہ کرسی کوئی ڈاکٹر مشتاق تھے ان کے لئے لگائی گئی تھی۔ انہوں نے بطور وزیر خزانہ حلف اٹھانا تھا۔ موصوف کے بارے میں تقریب میں موجود گورنر سٹیٹ بینک نے انکشاف کیا کہ وہ تو سٹیٹ بنک کے ملازم ہیں۔ جب یہ اطلاع کرتا دھرتا حضرات کو ملی تو انہوں نے کہا کہ ایک سرکاری ملازم کس طرح نگران وزیر بن سکتا ہے‘ چنانچہ حلف برداری سے چند منٹ پہلے ڈاکٹر مشتاق کی کرسی ہٹا لی گئی۔ سوال یہ ہے کہ نگران وفاقی کابینہ میں شامل ہونے والوں کے پس منظر کے بارے میں معلومات کی تصدیق کیوں نہیں کی گئی‘ آخری لمحوں میں ایک سُبکی کا سامنا کرنے سے بہتر تھا کہ چھان بین کر لی جاتی۔ منگل کی شام ایوان صدر میں حلف اٹھانے والے اکثر چہرے بالکل نئے اور اخبار نویسوں کے لئے قطعاًً اجنبی تھے۔ نگران وزراءخود اپنا تعارف کراتے رہے۔ اخبار نویسوں نے نگران وزراءکو اپنے وزٹنگ کارڈ بھی تھمائے تاکہ ان سے رابطہ کر لیں۔ حلف اٹھانے والی واحد خاتون وزیر ثانیہ نشتر کا تعلق سردار عبدالرب نشتر کے خاندان سے ہے۔ حلف اٹھانے کے فوراً بعد ان سے پوچھا گیا کہ انہیں کونسا محکمہ دیا گیا ہے تو محترمہ نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا میدان سماجی خدمت ہے۔ واضح رہے کہ نگران وفاقی کابینہ میں شمولیت کے لئے کئی اہم شخصیات کو دعوت دی گئی لیکن انہوں نے معذرت کر لی۔ ان میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی اور ممتاز اینکر پرسن طلعت حسین‘ بعض سابق سفارت کار اور معیشت دان بھی شامل ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38