جمعۃ المبارک‘ 25 ؍ محرم الحرام 1443ھ‘ 3 ستمبر2021ء
ملک میں بجلی کے 13 لاکھ 89 ہزار 184 کنڈا کنکشن ہیں: قائمہ کمیٹی
یہ اعدادوشمار کسی ابن صفی یا عمران راہی کی جاسوس کہانیوں سے نہیں لئے گئے۔ یہ اعدادوشمار سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں بتائے گئے ہیں ۔ جب ملک میں بجلی چوروں کا راج ہو تو عام صارف کیلئے بجلی تو مہنگی ہوگی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہو یہ بجلی چور ہر سال اربوں روپے کی بجلی چوری کرتے ہیں۔ اس کا عذاب عام صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ان بجلی چوروں میں عام صاف سے لے کر وزیر، مشیر، صنعتکار، کارخانے دار، فیکٹری والے، زرعی ٹیوب ویل والے، دکاندار، تاجر سب شامل ہیں۔ ان سب کی بہرحال معاونت اور عملی رہنمائی بجلی فراہم کرنے والے ادارے ہی کرتے ہیںجن کی بدولت یہ چوری ممکن ہوتی ہے۔ شہر ہوں یا گائوں یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو دستیاب ہیں۔ اندرون خانہ اور کہاں کہاں بجلی چوری ہوتی ہے اس کا تو ذکر ہی نہیں۔ اب قائمہ کمیٹی والوں اور حکومت کی دردسری ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کون سا ایکشن لیتے ہیں۔ یہ کوئی عام مسئلہ نہیں‘ قومی نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پائے بغیر بجلی کا بحران ختم نہیں ہوسکتا۔ بجلی کی آئے روز قیمت میں اضافہ بند نہیں ہوسکتا۔ محکمہ بجلی اب ان چوروں پر بجلی گرانے کی پوری تیاری کرکے قانون نافذ کرنے والوں کی نفری جو کیل کانٹے سے لیس ہو‘کو ساتھ لے کرحملہ آور ہو تو بجلی چوروں پر دھاک بیٹھ سکتی ہے ورنہ یہ بھی تمام حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ان پر ہاتھ ڈالنے کی صورت میں گلی محلے سے لے کر سڑکوں، بازاروں، فیکٹریوں اور کارخانوں سے لے کر کھیت کھلیانوں تک مزاحمت کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ بااثر بجلی چور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
٭٭٭٭٭
رمیز راجہ نے بابر اعظم کو فری ہینڈ دیدیا
اچھی کارکردگی دکھانے کیلئے ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔ اگر یہ کام پہلے ہی ہوجاتا تو بہتر تھا۔ کم از کم ہماری کرکٹ کی جو حالت آج ہے اس سے بچا جاسکتا تھا۔ اس میں بہتری آسکتی تھی مگر کوئی بات نہیں۔ کہتے ہیں نہ‘ دیر آید درست آید۔ رمیز راجہ نے جس طرح کرکٹ ٹیم کے کپتان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اس سے بابر اعظم کا حوصلہ بھی بلند ہوگا اور وہ بیرونی دبائو سے آزاد ہوکر موقع کی مناسبت سے فیصلے کرسکیں گے۔ یہ رمیز راجہ کا بڑا اچھا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مجھے صرف رزلٹ چاہئے۔ اپنی مرضی سے ٹیم بنائو کھلاڑی سلیکٹ کرو، کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ بابر اعظم نے چیئرمین پی سی بی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔ خدا کرے اب نئے چیئرمین کی آمد سے پاکستان کرکٹ بورڈ والوں کا قبلہ بھی درست ہو اور وہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں۔ کرکٹ بورڈ کو اپنی سیاست اور من مانیوں کا مرکز نہ بنائیں۔ اقربا پروری، من مانی اور میرٹ پر عمل نہ کرنے کی سزا ہم بہت بھگت چکے ہیں۔ اب عرصے بعد کرکٹ ٹیم فارم میں آئی ہے تو امید ہے پی سی بی کے نئے چیئرمین اس مثبت پیش قدمی کو جاری رکھیں گے۔ کھلاڑیوں کی اور کپتان کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پی سی بی میںبھی جھاڑو پھیرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں بھی صفائی ہو جہاں عرصہ دراز سے صفائی نہیں کی گئی۔
٭٭٭٭
امراض قلب کے ہسپتال میں ایکسپائر سٹنٹس ڈالنے کی تحقیقات کا مطالبہ
یہ واقعی بہت سنگین نوعیت کا معاملہ ہے۔ حکومت پنجاب اس پر سخت ایکشن لے لیں اور مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دے۔ انسانی جان بچانے کی بجائے اگر کوئی انسانی جان کو ہی خطرے میں ڈالتا ہے تو وہ خود بھی کسی رحم کا مستحق نہیں۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی امراض قلب کا ایک بہترین ہسپتال ہے۔ اس میں جو ہوا اس پر اب اپوزیشن نے شور تو مچانا ہی ہے جس کے جواب میں حکومتی ترجمان بھی آئیں بائیں شائیں کر تے نظر آئیں گے۔ اس طرح یہ سنجیدہ مسئلہ بھی سیاست کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم غلطی تسلیم کرنے اور اسے سدھارنے کی بجائے غلطی کی حمایت اور وضاحت کرکے مزید غلطیاں کرتے ہیں۔ یہ معاملہ حکومت پنجاب کی گڈ گورننس پر بھی ایک سوال ہے۔ عوام میں اضطراب پھیلا ہوا ہے کہ حکمرانوں کی ناک کے نیچے یہ کیا ہورہا ہے۔ اس لئے وزیراعلیٰ عثمان بزدار صوبائی انتظامیہ اور محکمہ صحت کو متحرک کریں جو اس واقعہ کی کڑی تحقیقات کرکے اس میں ملوث افراد کو بے نقاب کرے۔ ایک معتبر سرکاری ہسپتال میں ایسا ہونا قتل عام ہی کہلائے گا۔ مخالفین تو کہہ رہے ہیں کہ اب حکومت غریبوں کو مہنگائی کے بعد زائد المیعاد سٹنٹ ڈال کر مارنے کے درپے ہے۔ ادویات کو پہلے ہی مہنگی کرکے انہیں مارنے کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔
٭٭٭٭
طالبان نے کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا کے دورے کی اجازت دیدی
یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ اس طرح افغان طالبان دنیا کو دکھا سکتے ہیں۔ دیکھ لو اب ہم قدرے نرم ہوگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ طالبان کی پریس کانفرنس ہو یا عوامی تقریب، سرکاری دفتر ہو یا ذاتی‘ ہر جگہ وہ اسلحہ تھامے نظر آتے ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ یا تو وہ ڈرے ہوئے ہیں یا وہ ہر ایک کا بندوبست بندوق کی نوک پر کرنا چاہتے ہیں ۔ یوں ’’ٹو پک زما قانون‘‘ بندوق میرا قانون والی صدیوں پرانی لاجک آج بھی افغانستان میں پوری شد و مد کے ساتھ کام کرر ہی ہے اور وہاں کے نئے حکمران یعنی طالبان بھی ابھی تک بندوق کی زبان میں ہر بات سمجھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ …؎
بات کرتے ہیں جب معشوق سے
کام لیتے نہیں بندوق سے
اب تمام سختیوں کے باوجود جب ان کی طرف سے کرکٹ ٹیم کو آسٹریلیا کا دورہ کرنے کی اجازت دینا اچھا لگ رہا ہے ، مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ افغان کرکٹ ٹیم کا پاکستان کا دورہ بھی تو شیڈول میں شامل تھا مگر طالبان نے اپنے برادر اسلامی ملک کے دورے کی بجائے اپنی ٹیم کو آسٹریلیا کے دورے کی اجازت دے دی۔ حق تو پاکستان کا بنتا ہے کہ افغان کرکٹ ٹیم پہلے پاکستان آتی اور رنگ جماتی مگر یہ افغان کرکٹ بورڈ کی مرضی ہے۔ وہ جو چاہے کرے۔
٭٭٭٭