ندیم بسرا (کا لم نگار)
جمہوری و پارلیمانی نظام میں سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کا دارومدار انقلابی عوامی لیڈرشپ اور نظریاتی کارکنوں پر منحصر ہوتا ہے،ایسی جماعتیں ترقیاتی کاموں ، ولولہ انگیز قیادت کی وجہ سے ہمیشہ عوام میں اپنا مقام قائم رکھتی ہیں،پاکستان میں بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں میں صرف چند کی مقبولیت عوام میں قائم ودائم ہے، پاکستان مسلم لیگ ن بھی ایک ایسی جماعت ہے، جو عوام دوست قیادت اور ترقیاتی کاموں کی بدولت عوام میں مقبول ہے۔موجودہ حالات میں اس کا سہرا صدر مسلم لیگ ن شہبازشریف اورپارٹی رہنماؤں اور نظریاتی کارکنوں کو جاتا ہے۔شہبازشریف کے دور حکومت کے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا آج بھی طوطی بولتا ہے، سیاسی مخالفین ہی کیوں نہ ہوں، ان کی بطوروزیراعلیٰ پنجاب زبردست ایڈمنسٹریٹر ہونے کی تعریف کی جاتی ہے۔مسلم لیگ ن نے ورکرز کی مضبوطی کے لئے اقدامات تیز کئے ہیں اس کے پیچھے بلدیاتی الیکشن کی تیاری ہو یا عام انتخابات سے قبل پارٹی کا مضبوط ڈھانچہ قائم کرنا ہو۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف ملکی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں سیاسی مخالفت کی بنیاد پر ان کے سابقہ ادوار کے اقدامات یقینی طور پر قابل ستائش ہیں اس کی وجہ ان کا ترقیاتی کاموں پر مکمل پہرہ دینا ہے اسی کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم لیگ کی اعلی قیادت نے ملک بھر میں تنظیم سازی کو مکمل کرنے کے لئے اقدامات تیز کئے ہیں ماضی میں مسلم لیگ ن میں کئی برس تنظیم سازی نہ ہوسکی جس کی وجہ سے پارٹی سے دلی وابستگی رکھنے والے بہت سے ارکان خاموشی سے گھر بیٹھ گئے اور اسی طرح بہت سارے ارکان دوسری جماعتوں میں بھی جا کر بیٹھ گیے۔مگر موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے پیشن نظر اب ملک بھر میں تنظیم سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس بات کو سیاسی پنڈت مان رہے ہیں کہ تنظیم سازی ہونے سے پارٹی میں نئی جان آسکتی ہے پھر قیادت پر ہوگا کہ وہ پارٹی ورکرز کو کیسے لے کر چلتے ہیں۔پنجاب چونکہ ملک کی سیاست کا محور ہے پنجاب کی تبدیلی ملک کی تبدیلی کو سامنے لاتی ہے اس لئے اس صوبے میں لیے گئے سبھی جماعتوں کے اپنے فیصلے ان کو کامیابی کے زینے چڑھاتے ہیں اور شکست سے بھی دوچار کرتے ہیں۔ اس لئے پنجاب بولتا ہے تو ملک پاکستان میں اس کی گونج کراچی سے خیبر تک سنائی دیتی ہے۔اس کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر کی رانا ثناء اللہ ،جنرل سیکرٹری کی اویس خان لغاری اور ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں عظمی بخاری کو دی گئی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رانا ثناء اللہ اویس لغاری اور عظمی بخاری کی پارٹی سے وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔عظمی بخاری کا موقف چاہئے وہ اسمبلی کا فورم ہو یا جلسہ گاہ یا عوامی مسائل کے لئے کوئی فورم یہ مسلم لیگ کی ترجمانی بخوبی کرتے نظر آتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں یہ مسلم لیگ ن کی "آئرن لیڈی" ہے۔اسی تناظر میں جب بات کی جائے پاکستان کے دل لاہور کی تو لاہور میں پرویز ملک اور ن لیگ کے "ویڑنری نوجوان لیڈر "خواجہ عمران نذیر ہی نظر آتے ہیں ان کے ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات عامر خان بھی ان کے شانہ بشانہ کام کرتے نظر آتے ہیں۔کورونا میں لوگوں کی امداد کی بات ہو تو یہ لوگ اپنے وسائل سے خرچ کرتے نظر آتے ہیں۔پرویز ملک اور خواجہ عمران نے سوچ بچار اور پارٹی قیادت سے باہمی مشورے سے لاہور میں پانچ سینئر نائب صدور اور ایک ایڈیشنل جنرل کا تقرر کیا ہے جو عہدیدار پہلے موجود تھے وہ بدستور قائم ہیں بعض غیر فعال لوگ جو لاہور کی کسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوتے تھے ان کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا۔ نئے عہدیدآران میں سینئر نائب صدور میں غزالی بٹ،ملک سیف الملوک کھوکھر ،میاں طارق،مہر اشتیاق،کرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید شامل ہیں۔مسلم لیگ ن لاہور صوبائی سطح کے عہدیدآروں کے لئے نئے طریقے سے تنظیم سازی کرنے جارہی ہے ۔تاریخ میں پہلی مرتبہ پی پی کے عہدوں کے لیے کارکنوں کو منتخب کیا جائے گا۔وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہونگے، کوئی ایم این اے یا ایم پی اے اپنے بندوں کو نواز نہیں سکے گا ایک مشاورتی بورڈ انٹرویو لے گا نظریاتی اور اچھی شہرت کے کارکن منتخب ہو سکیں گے۔مسلم لیگ ن کے ان اقدامات سے پارٹی کے اندر جو سکوت کئی برسوں سے قائم تھا وہ یقینی طور پر ٹوٹ جائے گا ۔پارٹی میں قیادت اور کارکن ایک جگہ بیٹھ کر احسن فیصلے لے سکی گی ۔ملک میں بلدیاتی الیکشن بھی ہونے باقی ہے اگر اس سے قبل مسلم لیگ ن کے ورکرز شہباز شریف کی قیادت میں اکھٹے ہوگئے تو یقینی طور پر شہباز شریف ان کو مایوس نہیں کریں گے اور کارکن بھی شہباز شریف کو مایوس نہیں کریں گے کیونکہ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ شہباز شریف ہی مستقبل میں ن لیگ کی قیادت کی بھاگ دوڑ سنبھالیں گے۔