احساس ہی زندگی 

Sep 03, 2020

احساس انسانی زندگی کا محور ہے جس کے گرد سارا نظام حیات چلتاہے اگر احساس نکال دیاجائے تو انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں، یہ احساس ہی ہے جو ہمیں رشتوں کا تقدس، ذمہ داریوں سے آگاہی اور ایک بامقصد زندگی کا تصور دیتاہے، احساس اور ضمیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے بلکہ ایک لحاظ سے تو یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جس معاشرے سے احساس ختم ہوجائے وہ ایک بے ہنگم ہجوم کی صورت اختیار کرجاتاہے جہاں صرف اپنی ذات اور نفسی خواہشات کی اہمیت رہ جاتی ہے یہ احساس ہی ہے جو خود احتسابی اور ذمہ داری سے آشنا کرتاہے، ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر آج پستی کا شکار ہے جس کی بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بے حسی بھی ہے اگر ہم ہر طرف نظر دوڑائیں تو ذاتی سوچ مجموعی سوچ اور مفاد پر حاوی نظرآتی ہے۔ ہمارا معاشرتی اور خاندانی نظام دنیا جہاں کیلئے ایک نمونہ ہوا کرتاہے جہاں احساس، اخوت،تقدس، رواداری اور جذبہ ایثار سب سے نمایاں اقدار ہوتی تھیں، لوگ اس نظام پر نہ صرف رشک کیاکرتے تھے بلکہ تقلید کی کوشش بھی کرتے تھے، یہ اقتدار ہماری اسلامی اقدار سے بھی مطابقت رکھتی تھیں آج بدقسمتی سے معاشرے سے احساس ختم ہوتاجارہاہے ہم دوسرے پر تنقید بھی کرتے ہیں اور بہتری کی توقع بھی رکھتے ہیں مگر خود ایسا کرنے کو تیار نہیں، ہر کوئی یہ سوچتاہے کہ دوسرا ٹھیک ہوجاتے ہیں تو ٹھیک ہی ہوں اور نتیجتاً سارا معاشرہ بگاڑ کی طرف گامزن ہے، ہرکوئی بدانتظامی، اقرباپروری، بدعنوانی اور اختیار سے تجاوز کی شکایات کرتے ہیں مگر ایسا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ وہ اپنی اپنی حیثیت میں خود بھی تو حکومت کا حصہ ہیں، اگر کسی سرکاری ہسپتال میں صفائی کا نظام ٹھیک نہیں، انتظام وانصرام خراب ہے، مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں تو ذمہ دار اس ہسپتال کا انچارج ہے جو تمام مراعات سے لطف اندوز ہورہاہے یاپھراس صوبے کا وزیراعلیٰ، اگرمریضوں کے وارڈز میں لگے ایئرکنڈیشنرز انتظامیہ سے متعلق افراد کے 
گھروں میں لگے ہوں تو کون مورودالزام ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نجی محفلوں میں حکومت کوبرا بھلا کہہ رہا ہوگاجبکہ اپنی ذمہ داریوں کے متعلق وہ جواب دینے کیلئے تیار نہیں، اگر کسی عوامی پارک میں جھولا گرجاتاہے اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں تو ذمہ دار متعلقہ محکمہ یا ضلع کا سربراہ DCOہے یا اس صوبے کا انتظامی سربراہ، یقیناً سب سے اعلیٰ عہدے پر فائز شخص اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا مگر ہر حکومتی انتظامی سربراہی بھی حکومت کا حصہ ہی ہوتاہے، اگر انتظامی سربراہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایمانداری سے کام کرے تو حالات ایسے نہ ہوں جیسے کہ ہمیں نظرآتے ہیں بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ اپنے سامنے غلط کام ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ہم اسے نہیں روکتے جبکہ ہم میںسے کچھ تو ایسا کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں، اختیارات کا نہ ہونا، فنڈز کی عدم دستیابی یا سیاسی مداخلت جیسے جواز بھی بہرحال موجود رہتے ہیں مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ میسر اختیارات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے بھی بہت کچھ کیاجاسکتاہے۔ خالصتاً انتظامی معاملات میں توایسا ہر وقت ممکن ہوتاہے۔ ملازمین موجود ہیں مراعات بھی لے رہے ہیں مگر کام کرنے کو تیار نہیں کیونکہ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دوسروں پر تنقید ہمارے ہاں سب سے آسان کام نظرآتاہے مگر بامقصد تنقید بہت کم نظرآتی ہے۔ میڈیا بھی ہروقت کمزوریوں اور منفی پہلوئوں کو اجاگر کرتا نظرآتاہے کیونکہ اس کا مقصد بھی ذاتی تشہیر اور ریٹنگ میں اضافہ ہی ہوتاہے۔ ہمارے ہاں خبر کا مطلب ہے منفی چیز جبکہ معاشرے میں ہروقت بہت سے اچھے کام بھی ہورہے ہوتے ہیں مگر یا تو وہ خبر نہیں بنتے اور اگر بنتے بھی ہیں تو ایسی خبر ڈھونڈنی پڑتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ اگر اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرتے تو انہیں کون سمجھائے یا بتائے کیونکہ انہیں تو خود ایک مثال ہونا چاہیے۔ اگر ہر سکول یا کالج کا پرنسپل اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرے تو نظام تعلیم میں نظرآنے والی بہت سی خامیوں پر قابو پایاجاسکتاہے، یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سکول اور کالج کا پرنسپل بھی حکومت کا حصہ ہوتاہے، ہرکوئی اپنا حق تو مانگتاہے اور اس سے آشنا بھی ہے مگر ذمہ داری کا احساس کرنے کو تیار نہیں، حقوق حاصل کرنے کیلئے تو احتجاج بھی ہوتے ہیں اور مظاہرے بھی کئے جاتے ہیں مگر کبھی کسی نے ذمہ داریوں اور فرائض کی بجا آوری کیلئے بھی مظاہرہ کیاہے، اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کرنا بھی ایک بہت بڑی بددیانتی ہے جو بنیادی طور پر دوسری برائیوں کو جنم دیتی ہے، نہ صرف یہ کہ ہمیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ان کی ذمہ داریوں اور فرائض سے آگاہی کروانا ہے تبھی معاشرہ ٹھیک ہوگا۔ حکومت وقت کا بھی فرض ہے کہ کام چور اور اپنے فرائض سے پہلوتہی کرنیوالے اعلیٰ عہدے داروں کو قرار واقعی سزا دے جوکہ دوسروں کیلئے سبق آموز ہو۔ 

مزیدخبریں