جسمانی محنت بہت مشکل کام ہے۔ اس میں جسم و جاں کی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ اسی لیے حدیث ہے کہ مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو! سرمایہ کاروں کا استدلال ہے کہ پسینہ نکلنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ محنت کش کی پسینے کے ساتھ چربی بھی پگھلنے لگے تب بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ محنت اور سرمایے کی یہ کشمکش بہت پرانی ہے۔ آجر اور اجیر کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج حائل رہی ہے۔ سرمایہ دار کو قطعاً احساس نہیں ہوتا کہ اس کی مل مزدور چلاتا ہے۔ کروڑوں روپے کی مشینیں کس کام کی اگر انہیں کوئی چلانے والا نہ ہو۔ عالی شان بنگلے، محاوراتی بیس ڈانگ لمبی کاریں، لش پش سب دستِ مزدور کی مرہونِ منت ہیں۔
میں 1973ء میں لائل پور (فیصل آباد) میں لیبر کورٹ کا جج رہا ہوں جہاں تک ہو سکا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے میں نے مزدوروں کی مدد کی ۔ انہیں سرمایہ دار کی دست بُرد سے بچایا۔ ہزاروں نکالے گئے مزدوروں کو نوکری پر بحال کیا۔ صرف ایک کیس ایسا تھا جس میں درخواست مسترد کی ۔ کوہِ نور ملز کا ایک مزدور چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اس کو بھی پیپلز پارٹی کے تعینات کردہ سینئر کورٹ کے جج رائے رزاق صاحب نے بحال کر د یا۔ اپنے ’’تاریخی‘‘ فیصلے میں انہوں نے لکھا ۔ ’’بھرتی کرتے ہوئے ملز انتظامیہ کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ جانگلی عادتاً چور ہوتے ہیں۔ اتنے مدلل فیصلے کی اپیل کیا ہونی تھی۔ نتیجتاً ملزم بحال ہو گیا۔
94-95 ء میں ایڈیشنل سیکرٹری لیبر رہا۔ اس حیثیت میں مزدوروں کے مسائل جاننے کا ایک اور نادر موقعہ ہاتھ آیا۔ لیبر لیڈروں سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی۔ ان کے سُرخیل واپڈا یونین کے خورشید صاحب تھے۔ بشیر بختیار ہال میں محنت کشوں کے اجتماع سے کئی مرتبہ خطاب کیا۔ بشیر بختیار بہت نامور لیڈر تھے۔ نہایت دبنگ انسان تھے۔ ایک مرتبہ کسی میٹنگ میں وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے انہیں دھمکی دی۔ بابِ نبرد بھلا د ھمکی سے کیا ڈرتا! تُرت بولے۔ ’’میاں صاحب کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہنا۔ میری صرف ایک انگلی اٹھے گی اور پاکستان اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ عاقلِ را اشارہ کافی است۔ غصے کی جو لہر میاں صاحب کے اندر مدو جذر کی طرح اُٹھی تھی اسے انہوں نے کڑوے گھونٹ کی طرح نگل لیا۔ خورشید صاحب مرحوم کے داماد ہیں۔ لگتا ہے ان کی تربیت میں بشیر بختیار صاحب کا خاصا عمل دخل رہا ہے۔
آج کا کالم لکھنے کی بنیادی وجہ وہ حادثات ہیں جو بلوچستان کی کوئلے کی کانوں میں ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ رونما ہوتے ہیں اور جن میں کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ مجھے ان مسائل کا بھی بخوبی علم ہے کیونکہ 1968-70 ء میں میں اے ۔سی قلات تھا۔ مستونگ ہیڈ کوارٹر تھا اور بے شمار کوئلے کی کانیں میرے علاقے میں تھیں۔ ان تک پہنچنے کے لیے کوئٹہ شہر سے گز رنا پڑتا تھا۔ B ایریا ہونے کی وجہ سے پولیس کی عملداری نہ تھی۔ تمام علاقے کا امنِ عامہ اسسٹنٹ کمشنر، بلوچ لیویز کے ذریعے کنٹرول کرتا تھا۔ اس وقت میں نے اپنی کتاب ’’اجنبی اپنے دیس میں‘‘ میں جن مسائل کی نشاندہی کی وہ اب بھی جُوں کے تُوں کھڑے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے چند اقتباسات پیش ہیں۔
مستونگ سب ڈویژن رقبے کے لحاظ سے ہالینڈ کے برابر ہو گا لیکن آبادی بہت کم ہے، پھر سارا علاقہ سرسبز و شاداب بھی نہیں۔ مستونگ شہر، قلات اور چند دیگر علاقوں کو چھوڑ کر باقی تمام زمین بنجر اور غیر آباد ہے…سب ڈویژن کوئٹہ کے عقب میں واقع کوئلے کی کانوں سے شروع ہوتا ہے اور پھر کوئٹہ کے رخساروں کو چھوتی ہوئی بائونڈری لائن قلات جا پہنچتی ہے، پھر قلات سے بلند و بالا پہاڑیوں، وادیوں، گھاٹیوں سے پھسلتی، چھچھلتی اور مچلتی ہوئی جھالاوان جا پہنچتی ہے۔
بلوچستان کی بیشتر کوئلے کی کانیں مستونگ سب ڈویژن میں اور کوئٹہ سب ڈویژن ہیں یا اسکے آس پاس۔ کوئٹہ اور کول پور کو اگر دو نقطے قرار دے کر نصف دائرہ کھینچا جائے تو تمام کانیں سمٹ کر اندر آ جاتی ہیں۔ کان کنی بڑا مشکل کام ہے…اس کا اندازہ اس اَمر سے ہوتا ہے کہ مقامی لوگ ان میں کام کرنے سے کتراتے ہیں۔ اکثر مزدور صوبہ سرحد سے آتے ہیں۔ ایک اچھے خاصے دل گُردے کا آدمی بھی پانچ ہزار فٹ گہری کان میں داخل ہوتے وقت جھجکتا ہے۔ اکثر مزدور دمے اور تپ دق کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اُنہوں نے سکونت کے لیے پہاڑوں پر جھونپڑے نما مکان بنا رکھے ہیں جہاں حفظانِ صحت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔ ایک ہی کمرے میں انسان، بھیڑ بکریاں اور گدھے پُرامن بقائے باہمی کے ا صول کو زندہ رکھتے ہوئے مرتے ہیں۔ ’’مائیننگ لاز‘‘ میں مزدوروں کے لیے جن مراعات کا ذکر ہے، اُس کی ہوا بھی اُن تک نہیں پہنچ پاتی۔ ہاٹ واٹر باتھ (گرم پانی سے غسل) ہر کان کن کے لیے ضروری ہے تاکہ اُس کی رگوں، نتھنوں، کانوں اور آنکھوں میں گُھسے ہوئے کوئلے کے ذرات باہر نکل سکیں لیکن یہ بے چارہ جب کان سے باہر نکلتا ہے تو غسل تو درکنار پینے کے لیے ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دیتا ہے۔ پٹھان کان کن عجب متلون مزاج ہے۔ جنسی بے راہ روی کا یہ عالم ہے کہ کوئٹہ کا وہ بازار ان کے دَم قدم سے آباد تھا اور مذہبی جنون کا یہ عالم کہ ایک دفعہ ملحقہ مسجد کے امام سے چند دلالوں کا جھگڑا ہو گیا تو انہوں نے مذہب کی عظمت کی خاطر تمام طوائفوں اور دلالوں کے چہرے مسخ کر د ئیے۔ خوچہ! امارے امام کو مارہے۔
مزدوروں اور مالکوں میں اکثر دنگا فساد ہوتا رہتا ہے۔ محنت اور سرمائے میں یہ کشمکش ایک تاریخی عمل ہے۔ تاریخ یقیناً اپنے آپ کو اُن لوگوں کے لیے دہراتی رہتی ہے جو اس سے سبق نہیں سیکھتے…ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کے بیشتر مالک گزری ہوئی کل کے محنت کش تھے، لیکن سیم و زر کی چمک نے ان کی ہوس کو اور تیز کر دیا ہے۔ ماضی کی ذلتوں کو انہوں نے اپنے ضمیر کے تابوت میں گاڑ دیا ہے۔ یہ اپنے لب و لہجے ، رنگ ڈھنگ اور طمطراق سے یہ تاثر دیتے ہیں جیسے یہ کانیں اُن کو مغل شہنشاہوں سے براہِ راست ورثے میں ملی ہوں۔ یادش بخیر، ملک کے ایک مایہ ناز مائین اُونر نبی بخش زہری نے جو آزادی کے وقت خدا جانے کیا تھے، ایک دفعہ بڑی تاریخ ساز تقریر کی تھی۔ یہ غالباً جولائی 1969ء کا واقعہ ہے۔ موصوف قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے تھے اور موضوعِ سخن چاہے کچھ بھی ہو، ہرتان صدر ایوب خاں سے ملاقات پر توڑتے تھے۔ ان دنوں یحییٰ خاں کا مارشل لا تازہ تازہ لگا تھا اور مزدوروں کی ہڑتال نے کچھ ایسی نازک صورتِ حال اختیار کر لی تھی کہ فوجی حکام کی مداخلت ناگزیر ہو گئی۔ جنرل نوازش مرحوم نے مجھے اور کرنل ملک لال خاں کو یہ ہدایت کی کہ فریقین کو بُلا کر افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔ کرنل لال خاں کی صدارت میں ڈی سی کے کورٹ روم میں مزدوروں اور مالکوں کی مشترکہ کانفرنس بلائی گئی وہاں نبی بخش نے دلچسپ تقریر کی۔ اپنے خیالات کے اظہار کے لیے منطق کی بیساکھیاں استعمال کیں اور فرمانے لگے: ’’مزدوروں کا اُجرت بڑھانے کا مطالبہ کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اگر انہیں ہماری عملی مشکلات کا رائی بھر بھی اندازہ ہو جائے تو مجھے یقین ہے کہ یہ لوگ اُجرتوں کا مطالبہ چھوڑ کر ہمارے لیے ایک ویلفیئر فنڈ قائم کر دیں۔ ان کا کیا ہے، یہ صبح کام پر آتے ہیں اور شام کو پیسے جیب میں ڈالے اور پھر چھٹی۔ آندھی آئے، طوفان آئیں، زلزلے ہرچیز کو تہس نہس کر د یں، انہیں اس سے کچھ سروکار نہیں اور ایک ہم ہیں کہ ؎سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
مزدوروں کی تنخواہیں وقت پر نہ ملیں تو ہڑتال کی دھمکیاں۔ اگر بجلی فیل ہونے سے ڈی واٹرنگ پمپ کام کرنا چھوڑ دیں تو کانوں کے بیٹھ جانے کا خطرہ، اگر بنک قرض دینے میں پس و پیش کریں تو سارا کاروبار چوپٹ…کبھی کوئلہ ہے تو ویگنیں نہیں ملتیں، ویگنیں مل جائیں تو کوئلہ نکلنا بند ہو جاتا ہے۔ سڑکیں ہم بنوائیں، ہسپتال اور ڈسپنسریاں ہم کھولیں، ان کی زندگی موت کے ہم ذمے دار ہیں، سوروگ ہم نے پال رکھے ہیں، ان کو کیا غم ہے؟‘‘ اس کے بعد اپنی تقریر کا ردِعمل جاننے کے لیے انہوں نے ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ سامعین پر ڈالی، پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگے: ’’کرنل صاحب! آپ خود روشن ضمیر ہیں۔ اگر یہ مزدور ہیں تو ہم بھی مزدور ہیں۔ اگر یہ جسمانی مزدوری کرتے ہیں تو ہم ذہنی مزدوری کرتے ہیں۔ اگر ان کے شام تک اعضا شل ہو جاتے ہیں تو ہمارا دماغ بھی چکرانے لگتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اگر یہ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں تو ہو سکتا ہے ہم دو تین کمروں کے مکان میں سکونت رکھتے ہوں۔ اگر یہ رُوکھی سُوکھی کھاتے ہیں تو ہم شاید چُپڑی ہوئی کھا لیتے ہوں گے۔ محنت کے اس نئے رشتے سے جو ابھی ابھی ہمارے درمیان قائم ہوا ہے، کیا میں حق بجانب نہیں ہوں کہ اپنے مزدور بھائیوں سے چند مطالبات کروں؟ موصوف غالباً اپنے مطالبات کی فہرست نکالنے والے تھے کہ کرنل صاحب نے انہیں یاد دلایا کہ وہ اسمبلی میں نہیں، بلکہ ٹربیونل کے سامنے کھڑے ہیں۔ (جاری)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38