وزیراعلیٰ کا اس واقعے سے کیا تعلق تھا، کیوں نہ انہیں بلالیں,کیا وزیر اعلیٰ پنجاب اور بڑے لوگ خدا ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران پولیس میں سیاسی مداخلت کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی.پولیس میں سیاسی مداخلت کی انکوائری کا حکم دیا .جس کی تحقیقات آئی جی پنجاب کلیم امام کریں گے ، عدالت نے خاور مانیکا کی صاحبزادی کے ساتھ بدتمیری کی انکوائری ایڈیشنل آئی جی پنجاب ابوبکر کے سپرد کردی.آپ نے میری دی ہوئی ہدایات بھلا دیں، میں نے تمام آئی جیز کو بلا کر کہا تھا آج سے سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہو جائیں. پولیس سیاسی دبا ﺅ اور حاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے. کیا بطور کمانڈر آپ نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا. زبانی ٹرانسفر کے احکامات کیوں دیے تھے، وزیر اعلی پنجاب اور بڑے لوگ خدا ہیں؟' آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے. احسن گجر کون ہے، کہاں ہے،کھڑے ہوجا ﺅ، احسن گجر کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا گیا،آپ کا وزیراعلی پنجاب سے کیا تعلق ہے ، عدالت میں کھڑے ہو کر جھوٹ مت بولیں، جس کا دل چاہے پولیس کو بلاکر ذلیل کردے. آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا،چیف جسٹس نے خاور مانیکا استفسار کیا کہ کیا آپ زندہ ہیں، آپ نے بچوں کی کسٹڈی کسی اور کو دی رکھی ہے. آپ کی بچی کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا۔خاور مانیکا نے کہا کہ بچی نے بتایا پولیس نے دوران ڈیوٹی شراب پی رکھی تھی اور پولیس کے رویے کی وجہ سے بچی کانپ رہی تھی۔چیف جسٹس نے دوران مکالمہ کہا کہ مجھے توآئی جی پنجاب نے مایوس کیا، ہم بچی کو مس ہینڈل کرنے اور پولیس میں سیاسی مداخلت پر ایکشن لیں گے.جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی قبائلی ملک نہیں یہاں قانون چلتا ہے. وزیراعلی پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں ڈی پی او پاک پتن تبادلے پر از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ایک اجلاس میں تمام آئی جیز کو کہا تھا کہ سیاستدانوں کی محتاجی چھوڑ دیں‘ پولیس سیاسی دباﺅ اور حاکموں کے کہنے پر کام نہ کرے‘ خاور مانیکا اور احسن جمیل گجر عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیراعلیٰ کے پی ایس او اور سی ایس او بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آئی جی صاحب آپ کے علم میں تھا کہ ڈی پی او کو وزیراعلیٰ نے بلایا ہے۔ کلیم امام نے بتایا کہ مجھے اس وقت پتہ چلا جب ڈی پی او وزیراعلیٰ آفس روانہ ہوچکے تھے۔ ڈی پی او سے کہا آئندہ وزیراعلیٰ آفس روانگی سے پہلے مجھ سے اجازت لینا ہوگی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ڈی پی او کو وزیراعلیٰ آفس جانے سے منع کیوں نہیں کیا؟ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا حکم نامہ کہاں ہے؟ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے کا حکم زبانی تھا۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ رات ایک بجے تبادلہ کیا گیا آپ کہاں تھے آئی جی پنجاب نے بتایا کہ تبادلے کا حکم دیتے وقت میں اسلام آباد میں تھا۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کیا کہ آپ سے کہا تھا کہ آزاد ہوجائیں آپ نے ڈی پی او سے پوچھا کہ وزیراعلیٰ نے بلا کر کیا کہا؟ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ مجھ تک واقعے سے متعلق متضاد اطلاعات پہنچیں ڈی پی او پاکپتن کو حقائق کے مطابق ٹرانسفر کیا۔ ڈی پی او رضوان گوندل نے حقائق چھپائے غلط بیانی کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تبادلے کے زبانی احکامات کیوں دیئے کیا صبح نہیں ہونی تھی وہ فائل دکھائیں .جس میں آپ نے تبادلے کے احکامات جاری کئے۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ رات آٹھ بجے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کا فیصلہ کرلیا تھا ڈی پی او رضوان گوندل کا تبادلہ ضابطے کے مطابق تھا۔ چیف جسٹس نے احسن جمیل سے مکالمہ کیا کہ آپ ہوتے کون ہیں تبادلے کی ہدایت دینے والے؟ احسن جمیل نے جواب دیا کہ میں بچوں کا گارڈین ہوں چیف جسٹس نے احسن جمیل سے استفسار کیا کہ آپ وزیراعلیٰ کے دفتر میں کیا کررہے تھے۔ مبشرہ مانیکا پانچ روز سے پیدل چل کرجارہی تھی چیف جسٹس نے کہا کہ افریقہ سے فون کرائے جارہے ہیں پولیس پر دباﺅ ڈالنے پر کیا مقدمہ بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے احسن جمیل سے سوال کیا کہ آپ کا وزیراعلیٰ سے کیا تعلق ہے آپ سمجھتے ہیں سیاسی اثر کی وجہ سے پولیس کو ذلیل کرالیں گے۔ احسن جمیل نے بتایا کہ میں بچوں کا کفیل ہوں ان کی وجہ سے ایکشن لیا عدالت نے احسن جمیل سے مکالمہ کیا کہ آپ بچوں کے ماما ہیں؟ ان کے والد زندہ ہیں رضوان گوندل نے کہا کہ احسن جمیل نے کہا کہ آپ کو پیغام دیا لیکن آپ نے عمل نہیں کیا کہا گیا کہ آپ ان کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگیں۔ آئی جی پنجاب نے بتایا کہ احسن جمیل گجر کے خلاف پولیس پر دباﺅ ڈالنے کا مقدمہ بنتا ہے احسن جمیل گجر کے خلاف کارروائی کرکیں گے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سے مکالمہ کیا کہ آپ نے اپنے ادارے کو ذلیل کرادیا انسپکٹر جنرل آف پولیس نے اپنے ادارے کا مورال گرا دیا۔ وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ عثمان بزدار نے کہا وہ قبائلی علاقے سے ہیں۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ یہ قبائلی علاقہ نہیں ہے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مانیکا صاحب آپ زندہ ہیں احسن جمیل گجر کا کس کفیل ہے؟،چیف جسٹس نے استفسار کیا کدھر ہیں خاور مانیکا سامنے آئیں جس پر وہ اپنی نشست سے اٹھے تو چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ زندہ ہیں، آپ نے بچوں کی کسٹڈی کسی اور کو دی رکھی ہے، آپ کی بچی کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا۔ خاور مانیکا نے بتایا کہ احسن گجر اور ان کی اہلیہ سے ہماری فیملی کے 1997 سے تعلقات ہیں ڈی پی او سے کہا آپ نے بدمعاش چھوڑے ہوئے ہیں؟ بیٹی نے کہا پولیس اہلکاروں نے شراب پی رکھی ہے میں نے پولیس والوں کو ڈانٹا ان سے شراب کی بوآرہی تھی میں نے کہا جہاں یہ جارہی ہے اب اسی دربار سے معافی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بیٹی کا تقدس عزیز ہے جن پولیس اہلکاروں نے بچی کا ہاتھ پکڑا ان کے خلاف ایکشن لیں گے خاور مانیکا نے بتایا کہ میں نے ڈی پی او سے کہا کہ ایکشن لیں۔ میری بیٹی نے کہا کیا کوئی عورت رات کو پیدل نہیں چل سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیٹی کے ساتھ جو ہوا اس پر ایکشن لیں گے ہمارا تعلق وزیراعلیٰ کے معاملے سے ہے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پولیس افسر کا سیاسی اثر و رسوخ کے تحت تبادلہ کیوں کرایا گیا پی ایس او نے بتایا کہ وزیراعلیٰ نے آر پی او اور ڈی پی او کو چائے پر بلایا تھا ڈی پی او نے بتایا کہ ڈی آئی جی نے کہا آپ کا تبادلہ کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے کہا تھا صبح تک آپ کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے پی ایس او وزیراعلیٰ نے عدالت میں جواب دیا کہ یہ الفاظ میں نے نہیں کہے ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ تحریری طور پر تبادلہ ایک بج کر سات منٹ پر کیا گیا۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا کہ ڈی آئی جی صاحب آپ نے آج تک کتنے آرڈر رات ایک بجے کئے؟ ڈی آئی جی آپریشنز نے بتایا کہ اس سے پہلے ایک افسر کو رات دو بجے معطل کیا تھا. چیف جسٹس نے کہا آپ لوگ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں. آپ لوگوں کی انکوائری جے آئی ٹی سے کراسکتے ہیں. آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کو نوٹس کریں گے۔احسن گجر کون ہے، کہاں ہے،کھڑے ہوجا ﺅ، احسن گجر کے خلاف کیوں ایکشن نہیں لیا گیا۔چیف جسٹس نے احسن گجر سے استفسار کیا کہ کیا آپ بچوں کے گارڈین ہیں جس پر احسن گجر نے کہا میں ان آفیشل گارڈین ہوں، چیف جسٹس نے پوچھا آپ کا وزیراعلی پنجاب سے کیا تعلق ہے .جس پر احسن گجر نے کہا کہ میں شہری ہوں۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں کھڑے ہو کر جھوٹ مت بولیں، جس کا دل چاہے پولیس کو بلاکر ذلیل کردے. آپ بچوں کے ماما ہیں یا چاچا۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلی کو کیا حق تھا کہ پولیس کو بلا کر کہتا جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعلی پنجاب نے صرف داد رسی کرنے کا کہا تھا .جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہمیں وزیراعلی کو نوٹس دینا چاہیے. اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وزیراعلی قبائلی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ کوئی قبائلی ملک نہیں. یہاں قانون چلتا ہے، وزیراعلی پنجاب کو قانون کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ وزیراعلی پنجاب کو طلب کرکے پوچھا جائے، دائیں بائیں اور درمیان سے جھوٹ بولا جارہا ہے، ہم سوچ رہے ہیں کہ وزیراعلی کو عدالت بلائیں، وزیراعلی کا اس واقعے سے کیا تعلق تھا۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعلی پنجاب اور بڑے لوگ خدا ہیں؟' آپ نے پولیس فورس کی عزت بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے، ہمارا صرف ایک مقصد ہے پولیس خودمختار ہو، وزیراعظم نے بھی اس طرح کی بات کی ہے ۔ چیف سکیورٹی افسر نے بتایا کہ کچھ لوگ سکیورٹی پروٹوکول کے بغیر وزیراعلیٰ ہاﺅس جاتے ہیں ۔چیف جسٹس نے دوران مکالمہ کہا کہ مجھے توآئی جی پنجاب نے مایوس کیا، ہم بچی کو مس ہینڈل کرنے اور پولیس میں سیاسی مداخلت پر ایکشن لیں گے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اگر احسن گجر کے خلاف کیس بنتا ہے تو ایکشن لیا جائے.سپریم کورٹ نے ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر دو انکوائریز کا حکم دے دیا .سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ایک انکوائری تبادلے میں سیاسی اثر و رسوخ کے معاملے پر کی جائے دوسری انکوائری مبشرہ مانیکا سے پیش آنے والے واقعہ پر کی جائے عدالت نے آئی جی پنجاب سے دونوں انکوائریز پر رپورٹس ایک ہفتے میں طلب کرلی۔