عقدہ، ریاست مدینہ کا تصور اور پاکستان
پاکستان میں کوئی بھی شخص نہ ہی اتنا مقدس ہے اور نہ ہی نیکی اور اخلاقیات کے اس اعلیٰ معیار کے قریب پہنچنے کا تصور بھی کر سکتا ہے جیسا ریاست مدینہ کے ابتدائی دور کی بابرکت شخصیات کا وصف تھا، لیکن اپنی تمام تر کم مائیگی کے باوجود ریاست مدینہ کے ابتدائی دس سال کا تصور اور تاریخی پس منظر ہمارے لیے ایک آئیڈیل ماڈل کی حیثیت ضرور رکھتا ہے کیونکہ ان دس برسوں میں بہت سے ریاستی اور معاشرتی نظام ترتیب دیے گئے تھے جن کی بنیاد پر ایک شہری ریاست عظیم تہذیب اور سلطنت میں تبدیل ہوئی تھی۔
اگر غور کیا جائے تو آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان مسائل کا سامنا تو ریاست مدینہ کو بھی قیام کے ابتدائی دنوں میں کرنا پڑا تھا جن پر قانون کی نظر میں مساوات، غربا اور مساکین کی مالی امداد، بہتر مالی انتظام، اصولی تجارت، جرائم پر کنٹرول، تعلیم و تدریس اور دستیاب وسائل سے ریاست کے تحفظ جیسے اقدامات سے کیا گیا تھا۔ کامیاب سفارت کاری کے ذریعے دوستوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا ۔
آج پاکستان جس سماجی، معاشی اور ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اس کی بنیادی وجہ نا انصافیاں ہیں، عورتوں، بچوں اور کمزور طبقات کے لوگوں سے زیادتیوں کے واقعات کی خبریں معمول بن گئی ہیں۔ بالادست طبقات کے لوگ بدعنوانیاں کرکے کھربوں پتی بن گئے ہیں جبکہ ملک کی آدھی آبادی انتہائی غربت اور پسماندگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ عشروں میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر بہت سی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، پڑوسی ممالک خاص طور پر بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ریاست مدینہ کی سفارتی وسیع النظری پر نظر ڈالیں تو ہمیں حدیبیہ کے مقام پر قریش مکہ جیسے شدید دشمنوں کے ساتھ صلح نامے پر دستخط کرنے جیسا واقعہ بھی نظر آتا ہے۔ اس صلح نامے پر دستخط کر کے مسلمانوں کو بظاہر پسپا ہونا پڑا تھا لیکن اس امن معاہدے کے دور رس اثرات جلد ہی واضح ہو گئے تھے۔ آج اگر پاکستان مسئلہ کشمیر کے فریقین کے لیے قابل قبول حل تک پہنچنے اور بھارت کے ساتھ کسی امن معاہدے پر دستخط کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے بھی دور رس اثرات جلد ہی واضح ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ایک مسلم ایٹمی قوت کی حیثیت سے پاکستان کو عالم اسلام میں جو حیثیت حاصل ہے وہ کسی دوسرے اسلامی ملک کو حاصل نہیں ہے۔ پاکستان اپنی اسی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کے مابین کسی امن معاہدے پر پیش رفت کر سکتا ہے۔ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بد امنی کا سب سے بڑا سبب اسرائیل کا وجود ہے لیکن اسرائیل کے وجود کو مٹانے کے خیال میں خود ہی تباہ ہوتے چلے جانے کی روش پر چلتے رہنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ اگر فلسطینیوں پر جاری اسرائیلی مظالم روکنے کے لیے کوئی مسلم ممالک کی جانب سے کوئی مشترکہ امن معاہدہ کر لیا جائے تو کئی اسلامی ممالک کو اقتصادی پابندیوں، بدامنی، دہشت گردی اور جنگوں کے عفریت سے نجات مل سکتی ہے۔ کیونکہ جب تک اسرائیلی فوج حالت جنگ میں رہے گی اس وقت تک اسلامی ممالک میں دہشت گردی ہوتی رہے گی۔ القاعدہ ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان جیسی تنظیمیں ابھرتی رہیں گی اور مسلم اور غیر مسلم ممالک میں دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کرتی رہیں گی۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل نے لبنان اور شام میں اپنی سرحدوں کے نزدیک علاقوں کو برباد اور آبادی دوسرے ممالک میں دھکیل دیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے یہودیوں کی غیر قانونی بستیاں بنانے کی پالیسی نے فلسطینیوں کو بے زمین قوم بنا دیا ہے۔ اب بھارت بھی مقبوضہ کشمیر میں اسی پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی پالیسی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک اسرائیل کو خطرات لاحق رہیں گے امریکہ اس کی سیاسی، معاشی اور عسکری سرپرستی کرتا رہے گا جبکہ امن کی صورت میں اسرائیل کے داخلی سیاسی جھگڑے شدت اختیار کر جائیں گے۔
لیکن یہ بات پاکستان کے ان شدت پسند مذہبی حلقوں کو کون سمجھائے گا کہ بہت سے مسئلے ہمیشہ کی لڑائی کے بجائے ایک صلح نامے سے بھی حل ہو سکتے ہیں؟
تاہم حالیہ مہینوں میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور فلسطینیوں پر ہلاکت خیز حملوں کے تناظر میں امریکہ کو اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر جن سفارتی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے بعد بعض امریکی دانشور یہ خیال ظاہر کرنے لگے ہیں کہ سفارتی دنیا میں فیصلہ کن قوت امریکہ کے پاس ہی ہے لیکن جس طرح امریکہ کو سفارتی محاذ پر خفت اٹھانی پڑی ہے اس کے بعد لگ یہ رہا ہے کہ جس طرح امریکہ نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کی حمایت سے دست برداری اختیار کر لی تھی وہ اسرائیل کی نسل پرست صیہونی حکومت کی مدد اور حمایت سے بھی دستبرداری اختیار کر لے گا، تب اسرائیل کی صیہونی حکومت کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔ امریکہ کی سفارتی سرپرستی اور اربوں ڈالر سالانہ کی مالی امداد کی بندش کے بعد جب حالات بگڑنا شروع ہوں گے تو یورپ اور امریکہ سے آئے ہوئے سفید فام اشکنازی یہودی اپنے آبائی علاقوں کی طرف لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔ قیاس کیا جا رہا ہے کہ 21 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا مقروض امریکہ 2020ء تک اپنی بیرون ملک فوجیں سمیٹنا اور واپس بلانا شروع کر دے گا جبکہ معاشی بحران اور داخلی مسائل کے باعث اس کے لیے اسرائیل کی مالی امداد جاری رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اگر بدلتی دنیا میں پاکستان سنجیدہ سفارت کاری پر توجہ دی جائے تو آئندہ برسوں میں پاکستان خود اپنے لیے بلکہ مسلم امہ کے لیے بھی بڑی سفارتی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔