ان دنوں دوستوں اور دوستیوں کا بہت شور و غوغا ہے دوست کون ہوتا ہے؟ کس کی دوستی سے پرہیز لازم ہے اور کس کی دوستی کیسی رہتی ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی اس معاملے میں بھی رہنمائی فرمائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ جب کسی کو کچھ دینا چاہتے ہیں تو اسے ایک شائستہ دوست عطا فرما دیتے ہیں تاکہ اگر کبھی وہ خدا کو بھول جائے تو وہ دوست اسے یاد دلا دے اور اگر اسے یاد کرے تو یقین اور ایمان تازہ ہوں فرمایا ”جو کوئی خدا تعالیٰ کی راہ میں کسی کو بھائی بنا لے اسے جنت میں بلند مرتبہ عطا ہو گا“ مگر دوست بنایا کسے جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جس میں یہ تین خصوصیات ہوں۔ اول: وہ عاقل ہو کیونکہ احمق کی دوستی میں فائدہ تو کوئی نہیں الٹا نقصان ہی نقصان ہے کہ وہ برائی کرے گا“ فرمایا ”احمق سے دور رہنا عبادت اور اس کے چہرے کو دیکھنا گناہ ہے“ پوچھا گیا احمق کون ہے؟ فرمایا ”احمق وہ شخص ہے جو حقیقتِ کار سے ناواقف ہو جب اسے حقیقت بتائی جائے تو بھی وہ نہ جانے اور نہ ہی اسے سمجھ پائے۔ الٹا یہ کہے کہ ”میں بہتر جانتا ہوں“ دوئم ”جسے دوست بناﺅ وہ اچھے اخلاق کا مالک ہو کیونکہ بدخلق کے ہاتھوں سلامتی نہیں جب بھی اس کی رگ بدخوئی پھڑکے گی وہ تمہارے سب حقوق فراموش کر دے گا۔ تیسرے وہ شخص صاحب خیر و صلاح ہو کیونکہ جو کوئی معصیت پر ضد کرنے والا ہو گا وہ خدا سے نہیں ڈرے گا اور جو کوئی خدا سے نہیں ڈرتا اس پر اعتماد ممکن نہیں۔ بدعتی کی صحبت سے دوری اچھی ہے۔ ظالم سرکاری اہلکار کی دوستی سے بیزاری بہتر ہے اور ظالموں کی دوستی سے بچنا واجب ہے کیونکہ ان لوگوں پر ہر لمحہ لعنت نازل ہوتی ہے اور تو (ان سے دوستی اور محبت رکھنے والا) بھی اس میں گرفتار ہو جائے گا۔ بھڑوے کی صحت کو معیوب جانو اور دین اور عقیدہ پر الہام لگانے والوں کی دوستی سے بھاگو کہ یہ لوگ آفتوں کو دعوت دیتے ہیں اسی طرح بخیل اور سنگدل کی صحبت سے بھی دور رہو کہ اس کے بخل کی نحوست ایک دنیا کو گھیرتی ہے نیز ایسے شخص کی صحبت سے بھی پرہیز چاہئے جو یہ کہتا ہے کہ ”روز قیامت خلق خدا کا کوئی حساب و کتاب نہیں ہو گا اور کسی کو بھی فسق و گناہ پر گرفت نہ ہو گی“ ایسے لوگوں کی دوستی سے بچ کر رہنا چاہئے کہ ان سے دوستی میں دین و دنیا دونوں کا زیاں ہے۔
حضرت جعفر صادقؓ نے فرمایا پانچ قسم کے لوگوں سے دور رہو اور ان سے دوستی نہ کرو۔
اول: دروغ گو کہ ہمیشہ تم اس کے ساتھ جھوٹ ہی کا شکار رہو گے۔
دوسرا: احمق کہ اگر وہ تمہارے فائدے کی بھی کوئی بات کرنا چاہے گا تو اس میں بھی تمہارے لئے نقصان ہی ہو گا۔
تیسرا: بخیل کہ وہ تمہارا بہترین وقت ضائع کر دے گا۔
چوتھا: بددل کہ وہ تمہاری ضرورت کے وقت تمہیں چھوڑ دے گا۔
پانچواں: فاسق کہ تمہیں ایک لقمے کی خاطر بیچ دے گا۔
ان پانچوں قسم کے لوگوں سے بچ کر رہو۔
دانائے روم کا فرمان ہے
کار مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است
یہ کہ ”مردوں کا کام روشنی پھیلانا اور جرات بڑھانا ہے اور کمینوں کا کام دھوکہ دینا اور بے شرمی ہے۔
بلہ زد عرش از مدح شقی
بدگماں گرد و زموحش متقی
یہ کہ ”سنگدل بدبخت کی تعریف سے عرش لرز جاتا ہے اور ایسے کی تعریف سے پرہیزگار بدگمان ہو جاتا ہے۔“ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں ہماری اکثریتی آبادی مسلمان ہے ہمارے ملک کی صدارت اور وزارت عظمٰی کے حلف میں یہ شامل ہے کہ حلف لینے والا مسلمان ہے اور ہم جس عذاب عظیم میں پھنسے ہوئے ہیں اس کو دیکھیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی کو معیار بنایا جائے تو کیا کہنا چاہئے ان حاکموں کی اپنے ملک اور قوم سے دوستی کو؟ ہم سے ان کی دوستی اس معیار پر کس کی اور کیسوں کی دوستی ثابت ہوئی ہے؟ کیا ان کی ملک اور قوم سے ”دوستی“ کو معیار دوستی بنایا جا سکتا ہے؟ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک کے حاکم ہونے کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار دوستی پر پورے اترتے ہیں اور ان کا ایمان ہے کہ انہیں جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں کرتے رہے ہیں اس کا روز قیامت حساب و کتاب بھی دینا ہے؟ ایمان اور عقیدہ والے کا معیار عمل ہے کیا ان جانے والوں کی یاد سے اور آنے والوں کی تصاویر سے ایمان اور یقین تازہ ہو جاتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کس نے اور کیوں بنایا ہے اپنا دوست ایسوں کو؟ کیا دانائے روم کے معیار کے مطابق ہمارے دوست حکمران اپنے اعمال و کردار سے روشنی پھیلا رہے ہیں قوم میں ان کے اعمال و کردار سے اس بحران میں سرخرو ہو جانے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے؟ لعنت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے محرومی کیا ہم اہل پاکستان کی بحیثیت قوم ایسی محرومی کا سبب دوست کے انتخاب کی غلطی تو نہیں؟ سوچیں تو آج وقت افطاری و تراویح۔
حضرت جعفر صادقؓ نے فرمایا پانچ قسم کے لوگوں سے دور رہو اور ان سے دوستی نہ کرو۔
اول: دروغ گو کہ ہمیشہ تم اس کے ساتھ جھوٹ ہی کا شکار رہو گے۔
دوسرا: احمق کہ اگر وہ تمہارے فائدے کی بھی کوئی بات کرنا چاہے گا تو اس میں بھی تمہارے لئے نقصان ہی ہو گا۔
تیسرا: بخیل کہ وہ تمہارا بہترین وقت ضائع کر دے گا۔
چوتھا: بددل کہ وہ تمہاری ضرورت کے وقت تمہیں چھوڑ دے گا۔
پانچواں: فاسق کہ تمہیں ایک لقمے کی خاطر بیچ دے گا۔
ان پانچوں قسم کے لوگوں سے بچ کر رہو۔
دانائے روم کا فرمان ہے
کار مرداں روشنی و گرمی است
کارِ دوناں حیلہ و بے شرمی است
یہ کہ ”مردوں کا کام روشنی پھیلانا اور جرات بڑھانا ہے اور کمینوں کا کام دھوکہ دینا اور بے شرمی ہے۔
بلہ زد عرش از مدح شقی
بدگماں گرد و زموحش متقی
یہ کہ ”سنگدل بدبخت کی تعریف سے عرش لرز جاتا ہے اور ایسے کی تعریف سے پرہیزگار بدگمان ہو جاتا ہے۔“ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں ہماری اکثریتی آبادی مسلمان ہے ہمارے ملک کی صدارت اور وزارت عظمٰی کے حلف میں یہ شامل ہے کہ حلف لینے والا مسلمان ہے اور ہم جس عذاب عظیم میں پھنسے ہوئے ہیں اس کو دیکھیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی روشنی کو معیار بنایا جائے تو کیا کہنا چاہئے ان حاکموں کی اپنے ملک اور قوم سے دوستی کو؟ ہم سے ان کی دوستی اس معیار پر کس کی اور کیسوں کی دوستی ثابت ہوئی ہے؟ کیا ان کی ملک اور قوم سے ”دوستی“ کو معیار دوستی بنایا جا سکتا ہے؟ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ملک کے حاکم ہونے کے حوالے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ معیار دوستی پر پورے اترتے ہیں اور ان کا ایمان ہے کہ انہیں جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں کرتے رہے ہیں اس کا روز قیامت حساب و کتاب بھی دینا ہے؟ ایمان اور عقیدہ والے کا معیار عمل ہے کیا ان جانے والوں کی یاد سے اور آنے والوں کی تصاویر سے ایمان اور یقین تازہ ہو جاتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر کس نے اور کیوں بنایا ہے اپنا دوست ایسوں کو؟ کیا دانائے روم کے معیار کے مطابق ہمارے دوست حکمران اپنے اعمال و کردار سے روشنی پھیلا رہے ہیں قوم میں ان کے اعمال و کردار سے اس بحران میں سرخرو ہو جانے کا حوصلہ پیدا ہو رہا ہے؟ لعنت کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم سے محرومی کیا ہم اہل پاکستان کی بحیثیت قوم ایسی محرومی کا سبب دوست کے انتخاب کی غلطی تو نہیں؟ سوچیں تو آج وقت افطاری و تراویح۔