
گلوبل ویلج
آگ لینے آئی گھر والی بن بیٹھی
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
پاکستان کتنے مسائل میں گھِرا ہوا ہے اس سے ہم سب لوگ آگاہ ہیں۔ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ہر کسی کو اپنا بہترین کردار ادا کرنا ہے۔اس حوالے سے بھاری ذمہ داری اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے لوگوں پر ہے۔ آج کل ہمارے اعلیٰ ایوانوں کے مکین نگران ہیں۔ آئینی طور پر ان کا کام نوّے روز میں انتخابات کروانا ہے ،نہ یہ پالیسی بنا سکتے ہیں نہ یہ بڑے فیصلے کر سکتے ہیں۔ ان کی محدود ذمہ داریاں ہیں جو صرف اور صرف صاف ،شفاف اورغیرجانبدانہ انتخابات کروانے کی ہیں۔ لیکن اس طرف نہ تو نگران حکومتیں توجہ دیتی ہوئی نظر آتی ہیں اور نہ ہی الیکشن کمیشن فعالیت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ وہ اقوام متحدہ میں سالانہ تقریر کرنے کی رسم پورے کرنے کے لیے نیویارک گئے ان کا یہ دورہ پانچ روز کا تھا۔ وہ نیویارک میں تقریر کرنے سے پہلے فرانس چلے گئے ۔ اس کے بعد یہ نیویارک گئے ،نیویارک سے واپس انہوں نے پاکستان آنا تھا لیکن پاکستان آنے کی بجائے یہ لندن چلے گئے، لندن سے بھی واپس پاکستان نہیں آئے ،عمرہ کے لیے سعودی عرب چلے گئے۔ نگران وزیراعظم کو نیویارک میں خطاب کرنے کے لیے جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ہمارے مستقل مندوب منیر اکرم ہیں وہ بہترین سفارکار ہیں یہ سارا کچھ بہ احسن کر سکتے تھے۔ وزیر اعظم کو نہ صرف غیرجانبدار ہونا ہے بلکہ ان کو غیر متازعہ ہونے کی بھی ضرورت ہے لیکن ایسے ایسے بیان دے جاتے ہیں جن سے تنازعات بڑھتے ہیں۔ جیسا ان کی طرف سے کبھی یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں جماعت الیکشن میں نہیں ہوگی تو بھی انتخابات کو غیرجانبدار ہی کہا جائے گا۔ نگران وزراءبھی وہ بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ ان کی حیثیت بھی متنازعہ ہو گئی ہے۔ کسی پارٹی کی یہ نگران لوگ کھل کر حمایت کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ نفرت بھی نہیں چھپاتے۔ اور پھر نگران سیٹ اپ ہے بھی کیسا ، خورشید شاہ پیپلزپارٹی کے اہم لیڈروں میں ہے ان کی طرف سے اور دیگر لیڈروں کی طرف سے بھی بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت میں پانچ چھ وزراءکا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ اور پھر ایک ایسا وزیر بھی بنا دیا گیا جس کو نہایت اہم وزارت دے دی گئی جو ڈیڑھ دو سال تک جیل میں رہا۔ گویا اس کو موقع دے دیا گیا کہ جو کسر جیل میں رہ کر رہ گئی تھی اپنے آقا?ں کی خدمت کرنے کے لیے وہ اب وزیر بن کر پوری کر دیں۔
ایک تو نگران وزیراعظم صاحب کی طرف سے اپنے پانچ روزہ دورہ کو تقریباً پندرہ سولہ روز تک طویل کر دیا گیااور پھر ان کی جو ملاقاتیں لندن میں ہوئیں ان پر بھی اعتراض کیا جاتا۔
ادھر الیکشن کمیشن جس کا بنیادی کام ہی انتخابات کروانا ہے لیکن اسی سے وہ راہ فرار اختیار کرتا آیا ہے۔ اسمبلیاں ختم ہونے کے بعد نوّے روز میں انتخابات لازم تھے لیکن ان کو پرولانگ کیا گیا ،کبھی کہا گیا فروری میں انتخابات کروائے جائیں گے اب کہاجا رہا ہے کہ جنوری کے آخر میں لیکن حتمی شیڈول نہیں دیا گیا۔ انتخابات میں التوا کی وجوہات حلقہ بندیاں بتائی گئیں اور حلقہ بندیاں بھی اس طرح سے کی گئی ہیں جن پر سنگین اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں سات نشستیں کم کر دی گئیں۔صوبائی اسمبلی کی بھی کئی نشستیں کم کی گئیںجب کہ کراچی اور دیگر صوبوں کی سیٹیں بڑھا دی گئیں۔ آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ پنجاب اگر ہے تو یہ اس کا قصور کیسے ہو سکتا ہے لیکن لگتا یوں ہے کہ پنجاب کو اسی کی سزا دی جا رہی ہے، اگر پنجا ب بڑا صوبہ ہے اس کی آبادی زیادہ ہے تو پاکستان کے لیے وسائل بھی یہی صوبہ سب سے زیادہ فراہم کرتا ہے اور ناانصافی بھی اسی صوبہ کے ساتھ ہوتی ہے۔یہاں پر نوساڑھے نو لاکھ آبادی پر ایک قومی اسمبلی کی نشست بنائی گئی ہے جب کہ دیگر صوبوں میں ایسا بھی ہے کہ ایک بندہ پانچ سو چھ سو ووٹ لے لے تو وہ ایم این اے بن جاتا ہے۔ وہ بندہ پانچ چھ سوووٹ لینے والا ایم این اے اور تین چار لاکھ ووٹ لینے والا ایم این اے ان کی نمائندگی یکساں ہوتی ہے۔ آپ نے آبادی کے تناسب کو برابر رکھنے کے لیے تو سینیٹ میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی دی ہے تو پھر قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے اتنا زیادہ تفاوت کیوں ؟۔ پھر سینیٹ کے ممبر کے انتخابات کے لیے جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا کو بتایا جا ئے تو وہ اسے ایک تماشا سمجھے گی۔پنجاب میں ایک سینیٹر کو منتخب کرنے کے لیے بیس سے زائد صوبائی اسمبلی کے ووٹوں کی ضرورت ہے۔جب کہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے دو رکن مل کر سینٹ کا ایک رکن منتخب کر سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پر سینیٹ کے الیکشن کے دوران منڈیاں لگ جاتی ہیں اور بھاﺅ تاﺅ کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔اور الیکشن کمیشن سے جب الیکشن کی بابت پوچھا جاتا ہے توادھر سے ہمیشہ یہ جواب ملتا ہے کہ ہماری حلقہ بندیاں مکمل نہیں ،ووٹر لسٹیں نامکمل ہیں اور الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواران کا احتساب اور نااہل کرنے کا اختیار واپس لیا جانا چاہیے۔یہ کام پاکستان کی عدالتوں کا ہے
بات ہم نے کی تھی کہ نگرانوں کی اصل ذمہ داری تو صرف اور صرف انتخابات کروانا ہے لیکن یہ پالیسی سازی بھی کر رہے ہیں ،پالیساں بنا رہے ہیں۔ کبھی پی آئی اے کے بیرون ملک روزویلٹ جیسے اثاثے وہ بیچے جا رہے ہیں اور اندرون ملک بھی نج کاری کا سلسلہ جاری ہے۔ سنا ہے کہ پی آئی اے کو بھی پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے ایک جانثار کی خدمات حاصل کی گئی ہے۔نگران سیٹ اپ مرکز اور صوبوں میں جس طرح سے کام کر رہا ہے، لگتا ہے کہ وہ نوّے روز کے لیے نہیں آئے بلکہ وہ مستقل آئے ہیں اور پانچ سال کے لیے آئے ہیں۔ ان کی پالیسیوں سے، ان کے کاموں سے ،ان کی سرگرمیوں اور ترجیحات سے یہی نظر آتا ہے۔ لمبے لمبے منصوبوں کا اجرا کیا جا رہا ہے ، کوئی وزیراعلیٰ گرین لائنیں لگا رہا ہے، ایک تو نگران وزیر کی طرف سے کہہ دیا گیا کہ پاکستان کو درست سمت میں چلانے کے لیے ہمیں دس سال دے دیئے جائیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے آگ لینے آئی اور گھر والی بن بیٹھی۔ہو سکتا ہے کہ کہیں پر ایسی سوچ پائی جاتی ہو کہ اس سیٹ اپ کوپرولانگ کرنا ہے ،اگر یہ سوچ ہے تو انتہائی غلط سوچ ہے اورپاکستان کی جمہوریت کے لیے زہرِقاتل کی طرح ہے۔ایسی سوچ سے اجتناب کی ضرورت ہے۔ قارئین میری پاکستانی اداروں خصوصاً اسٹیبلشمنٹ ،بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ سے درخواست ہے کہ نگران وزیراعظم کو پابند کیا جائے کہ وہ پاکستان کی داخلہ و خارجہ اور معاشی پالیسیاں بنانے کی بجائے اپنا پورا فوکس ایک آزاد، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کی طرف مرکوز کریں۔لانگ ٹرم پالیسیاں بنانا منتخب جمہوری قوتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔