سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت: اس کیس کو آج کنارے لگانا ہے، چیف جسٹس

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق دائر 9 درخواستوں پر سماعت شروع ہوگئی جس کی سرکاری ٹی وی کے ذریعے براہ راست کوریج کی جارہی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا اورعدالت عظمٰی کی تاریخ میں پہلی بار سماعت کوبراہ راست نشر کیا گیا۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔اٹارنی جنرل اور فریقین کے وکلاء روسٹرم پر آ گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سوال ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو کم نہیں محدود کیا جا رہا ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو دیگر ججز کے ساتھ بانٹا جا رہا ہے، ہمارے پاس کافی مقدمے ہیں جو کہ بڑھتے جا رہے ہیں، اس قانون کا اثر چیف جسٹس اور سینئر ججز پر ہوتا ہے،ایک طرف چیف جسٹس کا اختیار کم نہیں محدود کیا جا رہا ہے، دوسری طرف یہی اختیار دو سینئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے، اس کا اثر آنے والے چیف جسٹس پر بھی ہوگا، ہم اچھی طرح اس کیس کو سننا چاہتے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ آج اس کیس کو سن کر فیصلہ کر دیا جائے، تحریری دلائل ہم بعد میں پڑھ لیں گے چیدہ چیدہ نکات دلائل میں بتا دیں، خواجہ طارق رحیم، امتیاز صدیقی اور اٹارنی جنرل کو سن چکے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ مجھ سے سوالات پوچھے گئے تھے ان کے جوابات دینے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چاہیں گے پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں۔درخواست گزار نیاز اللہ کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل کا آغاز کر دیا۔ وکیل اکرام چوہدری نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدالت میں پڑھنا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پورا ایکٹ نہ پڑھیں صرف متعلقہ شق ہی پڑھیں۔ اکرام چودھری نے کہا کہ پارلیمنٹ آئینی ترمیم صرف دو تہائی اکثریت سے ہی کرسکتی ہے، اس قانون کو خاص وجہ سے بنایا گیا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو مخصوص شخص کے لیے بنایا گیا، ایکٹ کے سیکشن 3 میں 184 تین کے کیسز کے لیے ججز کمیٹی بنائی گئی ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا سیکشن 5 نظر ثانی میں اپیل سے متعلق ہے، آرٹیکل 184 تین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار تھی، پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے آئین کے آرٹیکل نہیں بدل سکتی لہذا یہ شق بھی آئین سے متصادم ہے۔وکیل اکرام چوہدری نے عدالت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق خبر پڑھ دی۔ چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اپنے دلائل خبروں کی بنیاد پر دے رہے ہیں؟ آپ سیئنیر وکیل ہیں کیا اب خبروں کی بنیاد پر دلائل دیں گے؟ آپ قوم کے نمائندے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں۔جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتحال دیکھنا بھی ضروری ہے، پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس نے پھر ریمارکس دیے کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے؟ وکیل نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے اسپیکر کو تحریری طور پر کارروائی کے ریکارڈ کیلئے درخواست کی؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں، اگر آپ نے اپنی معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کے لیے درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ پورا سپریم کورٹ بیٹھ کر بےبنیاد دلیل سنے، وکیل نے دلائل میں کہا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔یہ ایکٹ آئین کو ہی یکسر رد کرتاہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے آئینی ترمیم کا بھی جائزہ لیا، اس عدالت نے کہا تھا یہ عدالت اس کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، اگرچہ اکثریت نے ترمیم کو ٹھیک کہہ دیا تھا، آپ کا یہ کہنا شاید ٹھیک نہ ہو کہ آئینی ترمیم سے ہوجاتا تو ٹھیک تھا، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا یہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیے نہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں۔ اکرام چودھری نے کہا کہ آرٹیکل سات ریاست کی تعریف واضح کرتا ہے، عدلیہ اس میں شامل نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کل پارلیمان کہے بیواؤں کے مقدمات کو ترجیح دیں تو کیا یہ عدلیہ میں مداخلت ہوگی؟ قانون سازی سے اگر لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیس میں سوال اچھے یا برے قانون کا نہیں ہے، سوال پارلیمان کی اس قانون کو بنانے کی اہلیت کا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 1973 کے آئین کے تحت بتائیے کہ کہاں قانون سازی کا اختیار ختم ہوتا ہے، پارلیمان کے اختیارات کا آئین سے ہی بتایا جانا ہے، غیر قانونی یا غیر آئینی تو آئین کی شقوں سے ہی بتایا جائے گا۔چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پورا دن سننا چاہتے ہیں لیکن اتنی مہلت نہیں، آپ نے 45 منٹ دلائل دیے ہیں۔