
آقائے دو جہاں رحمت کونین نور مجسم خاتم الرسل حضور نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ سراپا رحمت تھی۔ اللہ تعالی نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے بھی لفظ رحمة اللعالمین استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے : ” اور ہم نے آپ (ﷺ) کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجاہے “۔
حضور نبی کریمﷺ کی زندگی مبارکہ میں کسی بھی پہلو پر نظر دوڑائیں ہمیں ہر طرف خیر ہی خیر ، برکت ہی برکت اور رحمت ہی رحمت نظر آئے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ کسی خاص طبقے ، قبیلے ، علاقے یا ملک کے لیے رحمت بن کر نہیں آئے تھے۔ بلکہ حضور نبی کریم ﷺ دوست ، دشمن ، بچے ، بوڑھے ، عورت ، آزاد ، غلام ، یتیموں ، بے سہاروں ، انسانوں ، جانوروں ، کافروں اور مسلمانوں سب کے لیے رحمت تھے۔
ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں حجر اسود کو نصب کر نے پر عرب کے قبائل میں اختلاف پیدا ہو گیا تو کسی نے تجویزدی کہ صبح سب سے پہلے جو خانہ کعبہ میں تشریف لائے گا اس کو ثالث بنا لیں گے سب نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ایک نہایت حسین و جمیل چہرہ ، میانہ قد ، گھنی داڑھی ، سیاہ بال اور سر نگیں آنکھو ں والا تشریف لا رہا ہے۔ تما م قبائل قریش نے پکارا کہ ” یہ امین ہیں ، ہم راضی ہو گئے ، یہ محمد ہیں “۔انہوں نے آپ کو سارا واقعہ سنایا۔
آپ نے ساری بات سننے کے بعد اپنی چادر مبارک بچھا دی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے حجر اسود کو اٹھا کر اس پر رکھ دیا۔ اور پھر کہا کہ تما م قبائل کے نمائندے اس چادر کو پکڑ کر اوپر اٹھائیں۔ جب انہوں نے چادر کو اٹھا کر حجر اسود کو اوپر کیا اور جب تنصیب کی جگہ پر پہنچ گیا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اٹھا کر اسے دیوار میں نصب کر دیا۔ اس طرح عرب کے قبائل ایک طویل خونی جنگ سے بچ گئے۔ حضور نبی کریم ﷺ چاہتے تو یہ اعزاز اپنے قبیلے کو بھی دے سکتے تھے مگر آپ کی شان رحمت نے یہ گوارا نہ کیا۔
ایک مر تبہ ایک یتیم بچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س حاضرہوا اور کہا کہ میرے والد کے مرنے کے بعد ابو جہل نے میرا سارا مال ہڑپ کر لیا ہے اور مجھے کچھ نہیں دیتا۔ یہاں تک کہ میں اپنا جسم ڈھانپنے کے لیے کپڑوں سے بھی محروم ہوں۔ آپ نے اس بچے کو ساتھ لیا اور ابو جہل کے پاس چلے گئے اور بڑے رعب کے ساتھ فرمایا : اس بچے کا مال اس کو دے دو۔ ابو جہل میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ آپ کی بات کو رد کر دیتا اور اس نے اسی وقت یتیم کا مال لا کر اس کو دے دیا۔