مزاحمت نہیں مفاہمت

میاں نواز شریف بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہر مشکل میں ان کے خاندان کے لوگ ان کے لیے سہولت کاری کرکے راستہ نکال لیتے ہیں۔ 1999ءمیں جب انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کیا اور وہ اس کی پاداش میں قید ہو گئے تو ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے اپنے خاوند کی رہائی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے عوامی مہم چلائی اور ان کے والد میاں محمد شریف نے اندرون ملک اور بیرون ملک رابطے کرکے ڈیل کروائی۔ اور وہ اپنے خاندان کو باحفاظت پاکستان سے نکال کر لیجانے میں کامیاب ہو گئے۔ 
2018ءکے انتخابات کے نتیجے میں جب عمران خان کی حکومت آئی تو میاں نواز شریف مریم بی بی سمیت جیل میں تھے یہ میاں شہباز شریف کی کامیاب حکمت عملی تھی کہ وہ 50 روپے کے اشٹام پیپر پر اپنے سزا یافتہ بھائی کو نکال کر بیرون ملک لے گئے۔ میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر بین الاقوامی مہروں کے ذریعے گیم ڈالتے رہے اور میاں شہباز شریف اندرون ملک بیٹھ کر سرنگ نکالتے رہے۔ اور آخر کار وہ بھائی کے مزاحمتی بیانیہ کی موجودگی میں اپنے مفاہمتی بیانیہ کے بل بوتے پر تحریک انصاف کی حکومت ختم کروا کر خود وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ دونوں بھائیوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنا اپنا کردار نبھایا اور کسی کو بھنک بھی نہ پڑنے دی کہ یہ سارا کچھ باہمی انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
 اب جبکہ میاں شہباز شریف بھائی کی واپسی کا راستہ ہموار کر چکے تھے تو بھائی نے آنے سے پہلے پھر اپنے مزاحمتی بیانیہ کو زندہ وجاوید کرنے کے لیے بڑھک ماری جس کا پاکستان میں سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیا گیا۔ اس موقع پر ایسے لگ رہا تھا کہ پا جی نے بنا بنایا کام بگاڑ دیا ہے۔
 میاں شہباز شریف ایک روز پہلے ہی پاکستان آئے تھے اس مزاحمتی بیانیہ کے پیش نظر انھیں الٹے پاوں اگلے روز ہی واپس لندن جانا پڑا۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ میاں شہباز شریف کو سخت پیغام دیا گیا کہ اگر میاں نواز شریف نے اس بیانیہ کے ساتھ واپس آنا ہے کہ تو پاکستان میں بھی ان کے خلاف وہی سلوک ہو گا جو اس بیانیہ والوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ لہذا میاں شہباز شریف فوری لندن پہنچے اور پاجی کو سمجھایا حضور کیوں بنی بنائی گیم خراب کر رہے ہیں یہ وقت ایسی باتیں کرنے کا نہیں بلکہ سرجھکا کر کام نکلوانے کا ہے، جب اقتدار ہاتھ لگ جائے گا پھر دیکھی جائے گی۔ اس طرح وہ میاں نواز شریف کو اپنے بیانیہ پر یو ٹرن لینے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ سیاستدانوں کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہیں اپنی بات سے مکر جائیں جب چاہیں اس کو سیاق وسباق سے ہٹ کر قرار دے دیں اور کہہ دیں ان کے کہنے کا یہ مقصد نہیں تھا۔ 
بہر حال اب انھوں نے بدلہ لینے کو اللہ پر چھوڑ دیا ہے۔ اپنے مزاحمتی بیانیہ کو دفن کر دیا ہے اور میاں شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیہ کو قبول کرکے وطن واپسی کی ٹھان لی ہے۔ اس کے لیے وعدے وعید ہو چکے گارنٹیاں بھی ریفریش کروالی گئی ہیں۔ بس سعودیہ اور یو ای اے میں کچھ شخصیات کو یقین دہانی کروانی ہے کہ اب کی بار وہ جذبات پر قابو رکھیں گے۔ چند دن پہلے تک میاں نواز شریف کی واپسی میں بہت زیادہ ابہام پیدا ہو گئے تھے ان کی واپسی ففٹی ففٹی تھی لیکن اب انھیں گرین سگنل مل چکا ہے۔ 
میاں نواز شریف کو پاکستان میں تمام تر سہولتیں فراہم کی جائیں گی لیکن اس کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ الیکشن کب کروانے ہیں۔ میاں نواز شریف کی واپسی کے بعد عوامی مزاج کا جائزہ لیا جائے گا۔ اگر تو میاں نواز شریف عوام کو اپنے نئے بیانیہ کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر شاید الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے ورنہ تاخیر کے لیے ایک ہزار ایک جواز ابھی باقی ہیں۔ لیکن عوام اس جادو کا انتظار کر رہے ہیں جو میاں نواز شریف اپنی مٹھی میں بند کر کے لا رہے ہیں کہ کس طرح ایک بندے کے وطن واپس آنے پر مہنگائی بھی ختم ہو جائے گی، بے روزگاری کو بھی بریکیں لگ جائیں گی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی کم ہو جائیں گی، بجلی کے بل بھی کم ہو جائیں گے، دہشتگردی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، ملک سے غیر یقینی کے بادل بھی چھٹ جائیں گے، معاشی استحکام بھی آجائے گا اور ملک دنوں میں ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا شروع کر دے گا۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن