
مسلمانوں کا سرِعام ذبیحہ بھارت میں اب ”روزمرہ“ بنتا جا رہا ہے۔ پہلے ہفتے دس دن بعد ایسی خبر آتی تھی کہ فلاں جگہ ایک مسلمان نوجوان کو لنچ Lynch کر دیا گیا، اب ہر دوسرے تیسرے روز یہ خبریں آتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں تو یہ خبریں شائع نہیں ہو پاتیں لیکن دنیا بھر کے باقی ملک ان واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں۔
چند روز کے دوران تین واقعات ہوئے۔ ایک واقعہ مہاراشٹر کے شہر ستراہ میں ہوا جہاں ایک مسلم نوجوان نورل (غالباً نور اللہ) کو شوقیہ مار دیا گیا، پھر دہلی میں ایک ذہنی معذور مسلمان نوجوان اسرار احمد کو اس جرم پر ستون کے ساتھ باندھ کر پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا کہ اس نے پرشاد کے لیے رکھا گیا ایک کیلا اٹھا لیا تھا۔ مارنے والوں نے اس کی فلم بھی بنائی۔ ڈنڈوں سے بری طرح پیٹا جا رہا ہے اور اس کے حلق سے لرزہ خیز چیخیں نکل رہی ہیں۔ درد سے بے تاب ہو کر وہ معاف کر دو کی بار بار اپیلیں کرتا ہے لیکن معافی نہیں دی گئی یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گیا۔
ایک ہائی پروفائل قتل راجستھان کے سب سے بڑے شہر جے پور میں ہوا جہاں ایک مسلمان تاجر اقبال کی کار ایک موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے میں کوئی زخمی نہیں ہوا، موٹر سائیکل کو بھی نقصان نہیں پہنچا بس ایک ہلکی سی رگڑ لگی لیکن ہندو نوجوان اکٹھے ہو گئے اور تاجر کو گھسیٹ کر گاڑی سے نکالا اور جب پتہ چلا کہ مسلمان ہے تو اسے بھگا بھگا کر ڈنڈوں لاٹھیوں سے مارا یہاں تک کہ مار مار کر اس کی جان لے لی۔ چونکہ محمد اقبال ایک بڑا تاجر تھا اور پھر مسلمانوں نے مظاہرے بھی کئے اس لیے پولیس نے قاتل گرفتار کر لئے۔ جے پور پولیس سینتالیس لاکھ آبادی کا شہر ہے اور یہاں آٹھ دس لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ محمد اقبال کے جنازے میں ایک لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ اتنے بڑے جلوس کے بعد ہندو انتہا پسند محتاط ہو گئے ہیں۔ بھارت کے دوسرے شہروں میں بھی مسلمان بڑے بڑے مظاہرے کریں تو فضا میں تبدیلی آ سکتی ہے لیکن یو پی، ایم پی وغیرہ کے مسلمان اتنے ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ جلوس نکالنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتے۔ پھر فرقہ واریت کا ناسور بہت پرانا ہے۔ مرنے والا دیوبندی ہو تو بریلوی احتجاج نہیں کرتے، بریلوی ہو تو دیو بندی احتجاج نہیں کرتے۔ میلاد النبی پر ، ابھی کل پرسوں کی بات ہے، جلوس نکلے تو ان میں مخالف عقیدے والوں کو کافر سے بدتر کے ہونے کے خطاب سے نوازا گیا۔ ایک فرقے کے مسلمان کے قتل پر ہندوﺅں سے زیادہ دوسرے فرقے کے مسلمان خوش ہوتے ہیں۔ ایسے واقعات کی وڈیوز موجود ہیں۔
یہ تو قتل کے واقعات ہیں، بری طرح زخمی کرنے، ہاتھ پاﺅں توڑ کر معذور کرنے کے واقعات تو دن میں کئی کئی بار ہوتے ہیں۔ زیادہ تر الزام گائے رکھنے یا گائے کا گوشت بیچنے کا ہوتا ہے۔ تین چار روز قبل ہندو نوجوان ایک مسلمان کے گھر گھس گئے، الزام لگایا کہ گھر کی فرج میں گائے کا گوشت ہے۔ انہوں نے فرج اٹھائی، کھولی تک نہیں، بس ساتھ لے گئے۔ اور گھر والوں کو بری طرح مارا بھی۔
_____
اسی کالم میں پہلے بھی لکھا تھا کہ اکا دکا کے سوا، بھارت کی تقریباً تمام ٹینریز ہندو سیٹھوں کی ملکیت ہیں۔ ان ٹینریز کے اپنے بوچر خانے ہوتے ہیں۔ خود ہندو اپنی بیمار گائیوں کو چھوڑ جاتے ہیں۔ جہاں یہ باری ذبح کی جاتی ہیں (ذبح کرنے کا طریقہ: سر پر بڑا ہتھوڑا مار مار کر ہلاک کر دیتے ہیں یا مشین کے ذریعے گلے میں لمبا شگاف لگا دیتے ہیں) جب تک باری نہیں آتی، ان گائیوں کو پانی دیتے ہیں نہ دانہ۔ ایسی بنیا ذہینت ہے۔ کئی کئی دن یہ گائیں بھوکی پیاسی رہتی ہیں)۔
ٹینریز کے علاوہ گائے کا گوشت بطور خوراک دنیا بھر کو برآمد کرنے والے بہت سے بڑے بڑے کارخانے ہیں جہاں ہر روز سینکڑوں گائیں، فی کارخانہ ذبح ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہندوﺅں کی ملکیت ہیں۔ تین بڑے کارخانوں کے نام ملاحظہ فرمائیے۔
-1 الکبیر
-2 عریبین ایکسپورٹس
-3 النور
نام دیکھتے ہی آپ سمجھ جائیں گے کہ یہ مسلمانوں کے کارخانے ہیں لیکن نہیں، الکبیر کا مالک اٹل سبھروال، عریبین کا سنیل کپور اور النور کا سنی سوڑھ ہے۔ ان تین سمیت تمام کے تمام بڑے کارخانے جو گائے مارنے سے لے کر اس کا گوشت بنانے، اسے پروسیس کر کے سیل بند ڈبوں میں پیک کرنے کا تمام کام کرتے ہیں، ہندوﺅں کے ہیں۔ یہی کارخانے پھر ان ڈبوں کو ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ یہ سب کارخانے بی جے پی کو چندہ دیتے ہیں۔ جو ہر روز ہزارہا بلکہ مجموعی طور پر لاکھوں گائیوں کو مارتے ہیں، ان پر آج تک کسی وشوا پریشد، بجرنگ دل وغیرہ نے دھاوا نہیں بولا، مسلمان کو دور ہی سے گاﺅ ہتھیا کا الزام دے کر مار دیا جاتا ہے۔
دلت کا حال بھی مسلمانوں جیسا ہے۔ ہر روز ان کی بھی لنچنگ ہوتی ہے۔ ایک بہت دردناک واقعہ چند روز قبل مغربی سیگال میں پیش آیا۔ ایک آدمی واسی (قبائلی) بچہ شہر آ نکلا۔ بارہ سال کے اس بچے کو پیاس لگی تو اس نے کسی سے پانی مانگا۔ اس نے بچے کے حلیے سے سمجھا کہ دلت ہے۔ دلت کی یہ ہمت کہ اونچی جاتی والوں سے پانی مانگے۔ سب اکٹھے ہو گئے اور لاٹھیاں مار مار کر اس بارہ سالہ بچے کو مار ڈالا اور پھر کپڑے اتار کر ننگی لاش سڑک پر گھماتے رہے۔
_____
منی پور میں کیا ہو رہا ہے؟۔ اس ننّھی منّی ریاست میں غیر ہندو آبادی کی اکثریت ختم کرنے کے لیے بی جے پی نے پوری ریاست کو آگ لگا دی ہے۔ 30 یا 35 لاکھ کی آبادی میں عیسائی 42 اور مسلمان 9 فیصد، جبکہ سناماھی ، بودھ اور دیگر مذاہب کے لوگ مل کر 58 فیصد بن جاتے ہیں۔ ہندو 41 فیصد ہیں۔ مودی نے لوگوں کا قتل عام کر کے اس چھوٹی سی ریاست کو ”ہندو واکز“ کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے اور بھارتی میڈیا اس مہم میں مودی کے ساتھ ہے۔ اب تک یک طرفہ فائرنگ اور آتشزدگی کے واقعات میں سینکڑوں غیر ہندو ہلاک اور ہزاروں زخمی کئے جا چکے ہیں جبکہ پوری کی پوری بستیاں نذر آتش کی جا چکی ہیں۔
_____
مودی کی حکومت کچھ عرصے سے مخالف ہواﺅں کی زد میں ہے۔ جو صوبے اس کا گڑھ سمجھے جاتے تھے، وہاں بھی مخالفانہ جلوس نکل رہے ہیں۔ مودی کے بارے میں لطیفے مقبول ہو رہے ہیں، اس کے جھوٹے بیانات کی وڈیوز بن رہی ہیں اور اس کا مضحکہ اڑانے والے گیت بہت مقبول ہو رہے ہیں۔
دلّی کا تاریخی رام لیلا میدان بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پہلے جتنا بڑا نہیں رہا پھر بھی کئی لاکھ لوگ اس میں آ جاتے ہیں۔ تین روز پہلے مودی سرکار کی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف لاکھوں سرکاری ملازموں نے یہاں جلسہ کیا اور یہ میدان چھوٹا پڑ گیا۔ آدھے سے زیادہ میدان سے باہر تھے۔