خاتون جج کو دھمکی سے متعلق کیس میں عمران خان کی عبوری ضمانت
اسلام آباد میں خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے جس کے بعد بابر اعوان کے توسط سے دائر کی جانے والے درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔ وارنٹ گرفتاری تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو عمران خان کے خلاف دفعہ 189، 506، 504 اور 188 کے تحت درج مقدمے میں جاری ہوئے تھے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر پہلے ہی مذکورہ مقدمے میں سے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعہ ختم ہو گئی تھی تاہم انھوں نے باقی دفعات میں ضمانت نہیں کرائی تھی جس کی وجہ سے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔ عمران خان جب سے اقتدار سے محروم ہوئے ہیں وہ ’اینگری مین‘ بن کر عوامی جلسوں میں خطاب کرتے ہوئے جوشِ جذبات میں اس قسم کے الفاظ استعمال کر جاتے ہیں جن پر بعد میں گرفت ہو جاتی ہے۔ اپنے چیف آف سٹاف شہباز گل کی گرفتاری اور ان پر ہونے والے مبینہ تشدد کے خلاف احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے خاتون جج کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں ان کے خلاف متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اسی مقدمہ کے تحت انھیں عدالت میں بھی طلب کیا گیا لیکن وہ پیش نہ ہو سکے اور ضمانت نہ ہونے کی بنا پر علاقہ مجسٹریٹ نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔ دوسری جانب، عمران خان نے توہینِ عدالت کیس میں بیان حلفی جمع کرایا کہ انھیں دورانِ سماعت احساس ہوا کہ 20 اگست کو تقریر میں شاید ریڈ لائن کراس کی۔ جج کو دھمکی دینے کا ارادہ نہیں تھا۔ اگر جج کو یہ تاثر ملا کہ ریڈ لائن کراس ہوئی تو معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ اگر عدالت اپنے اطمینان کے لیے مزید کچھ کرنے کا کہے تو وہ کرنے کو بھی تیار ہوں۔ عمران خان کا مذکورہ بیان حلفی عدالت میں ہے، اب عدالت ہی اس سلسلے میں بہتر فیصلہ کر سکتی ہے۔ یہ مقدمہ غیر ضروری طور پر کھینچا جارہا ہے جس سے عدلیہ اور پولیس کی توجہ ضروری معاملات سے ہٹ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس معاملے کو بلا تاخیر نمٹایا جائے تاکہ حقیقی عوامی مسائل ریاستی مشینری کی توجہ کا مرکز بن سکیں۔