سائفر: حساس معاملے کی سیاست کی نذر نہ کیا جائے
گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کی سیاست میں جو موضوع سب سے زیادہ زیرِ بحث رہا وہ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے گھڑی گئی امریکی سازش کی کہانی ہے۔ اس کہانی کا سارا تانا بانا ایک سائفر یا مراسلے کے گرد بُنا گیا جسے کے بارے میں دعوے تو بہت سے کیے گئے لیکن حقائق کیا ہیں یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ حقائق کے منظرِ عام پر نہ آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اس مسئلے پر اپنی بنائی ہوئی کہانی کے سوا کسی بھی اور بات کو سننے سے مسلسل انکار کیا اور وہ اب تک اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔ حال میں لیک ہونے والی عمران خان اور ان کے سابقہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کی مبینہ آڈیوز سے یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ مذکورہ مراسلے کو ایک خاص رنگ دینے کے لیے منصوبہ بندی کیسے کی گئی لیکن اس کے باوجود عمران خان بضد ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کو من وعن مان کر ان کی مرضی کے مطابق معاملات نگران حکومت کے سپرد کر کے عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔
اس سے پہلے کہ حکومت مذکورہ آڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد اس سلسلے میں کوئی اقدام کرتی، یہ بات پتا چلی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس میں موجود مراسلے کی نقل غائب ہوگئی ہے۔ خود عمران خان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سائفر کی جو کاپی میرے پاس تھی معلوم نہیں وہ کہاں غائب ہوگئی ہے۔ ایک نجی ٹیلیویژن چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ صدر مملکت سائفر چیف جسٹس کو بھجواچکے ہیں، وہ کہہ دیں غلط ہے، ہم اگلے دن اسمبلی چلے جائیں گے۔ صرف سات دن کا انتظار ہے، اس کے بعد آئندہ لائحہ عمل بتائیں گے۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد سے اب تک عمران خان مسلسل حکومت اور ریاستی اداروں کو دھمکیاں دے رہے ہیں یا ان کے خلاف اس طرح کے بیانات دے رہے ہیں جو عام طور پر بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔ عوام کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ اب تک ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی اور عدالتوں کی طرف سے بھی انھیں غیر معمولی رعایتیں دی جارہی ہیں۔
دوسری جانب، پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی نائب صدرمریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیراعظم ہاؤس سے سائفر بھی اٹھا کر لے گئے کیونکہ سائفر میں ٹیمپرنگ اور جعلسازی کی گئی تھی۔ بنی گالہ پر چھاپہ مار کر سائفر برآمد کیا جائے۔ عمران خان نے پاکستان کی سا لمیت، قومی سلامتی، جمہوری نظام، خارجہ پالیسی اور سفارتی تعلقات کے خلاف سازش کی۔ آج پاکستانی وزیراعظم کے ذریعے کوئی ملک پاکستان سے رابطہ کرنے سے ڈرتا ہے کیونکہ وہ کہتے کہ اگر ہم کوئی خط بھیجیں گے تو وہ تبدیل کر کے سازش بنادیا جائے گا۔ پاکستان کی یہ کیسی تصویر پیش کی گئی ہے۔ لاہور میں وفاقی وزراء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ وہ خط جو کوئی سازش نہیں تھا اس کی آڑ میں پاکستان کے تعلقات کھیل تماشہ بنا دیے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے ماتھے پر غداری کا لیبل لگا ہے جو آج تک کسی وزیراعظم پر نہیں لگا۔ پریس کانفرنس میں شریک وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ عمران خان نے سائفر کے ذریعے سازش کا سہارا لیا اور اپنی سٹوری بنائی، اب تک جو آڈیوز لیک ہوئی ہیں، ان سے یہ سازش کھل گئی۔آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا ذمہ دار عمران خان ہے، اس کا ایجنڈا ہی پاکستان کو ختم کرنا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ معاشی طور پر تو اس نے ختم کر ہی دیا ہے، ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا ہے۔
یہ بہت افسوس ناک صورتحال ہے کہ ایک نہایت سنجیدہ اور حساس معاملے کو سیاسی مفادات کی نذر کیا جارہا ہے۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولا باری کا سلسلہ جارہی ہے اور اس کا نقصان ملک اور قوم کو ہورہا ہے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے ایک طرف سائفر کو بنیاد بنا کر امریکا پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے اور دوسری جانب امریکا میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے وہاں ایک لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرلیں۔ ایسی صورتحال شاید دنیا کے کسی بھی اور ملک میں تصور تک نہیں کی جاسکتی۔ اس معاملے میں ہماری سیاسی قیادت کا رویہ انتہائی غیر سنجیدہ ہے اور انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ بین الاقوامی تعلقات سے جڑا ہوا معاملہ ہے جس کے اثرات بہت دیر تک اور دور تک ہمیں متاثر کرتے رہیں گے۔
سائفر سے متعلق سازشی بیانیہ گھڑ کر عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے لیکن حکمران اتحاد بھی اس معاملے میں دانش مندی سے کام نہیں لے رہا۔ یہ معاملہ تحریک انصاف یا عمران خان کی شکست کا نہیں بلکہ ملکی سالمیت، مفادات اور بین الاقوامی تعلقات کا ہے، لہٰذا اس میں حد درجہ احتیاط کی جانی چاہیے۔ بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے یا جھوٹا ثابت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھا کر اس معاملے کو زیر بحث لائے اور ایک ہی بار اس کا حل نکال لے تاکہ اس کی وجہ سے اب تک جو نقصان ہوچکا ہے اس کے ازالے کے لیے کوشش کی جاسکے۔ اس مسئلے پر ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور منفی قسم کے بیانات دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے سیاسی قیادت کو اس سب سے باز رہنا چاہیے۔