خاتون جج کو دھمکیوں کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے۔ تھانہ مارگلہ کے علاقہ مجسٹریٹ نے خاتون مجسٹریٹ زیبا چودھری کو دھمکی دینے کے کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد ہر لمحہ حالات بدلتے رہے، کراچی سے احتجاج کی خبریں آئیں پھر بنی گالا میں بھی کارکنان پہنچ گئے وہاں بھی احتجاج ہوتا رہا، اس دوران عمران خان کے نامعلوم مقام پر منتقل ہونے کی خبریں بھی نشر ہوئیں لیکن شبلی فراز نے عمران خان کی طرف سے اپنے پالتو جانوروں کو کھانا کھلانے کی تصویر جاری کر دی۔ عمران خان کے لیے حالات بہت مثالی نہیں اور ان کے قریبی لوگوں میں سے کئی لوگ انہیں مسلسل احتجاج اور تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں شاید وہ اپنی سیاست بچانا چاہتے ہیں چونکہ عمران خان جارحانہ حکمت عملی کو پسند کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جذباتی انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ اب وقت بدل رہا ہے اور آہستہ آہستہ ان کی مشکلات میں اضافہ یہ بتاتا ہے کہ خان صاحب پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں رہے۔ بالخصوص آڈیو لیک کے بعد تو ان کی پوزیشن مزید کمزور ہوئی ہے۔ یہ سیکیورٹی بریچ ہے یا کچھ اور لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ہر دوسرے لمحے پی ٹی آئی قیادت نے ریڈ لائن کراس کی اور جب آپ مسلسل حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو پھر چیزیں قابو سے باہر ہوتی ہیں۔ یہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ حامد خان دوبارہ سامنے آئے اور انہیں ابتدائی طور پر عدالتوں کے ساتھ محاذ آرائی سے نکالنے میں کامیاب ضرور رہے لیکن یہ وقتی سہولت ہے پائیدار حل نہیں۔ اب وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ہیں یہ ساری چیزیں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یاد رکھیں جب فیصلہ ہو جائے تو پھر اس کا اگلا مرحلہ عملدرآمد کا ہوتا ہے۔ عمران خان کے نادان دوست انہیں عملدرآمد کے مرحلے تک لے آئے ہیں۔
جب فیصلہ کرنے والے فیصلہ کر لیں تو کیا ہوتا ہے۔ پھر فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہے اور نتائج بارے سوچا نہیں جاتا بلکہ یہ کہا جائے کہ فیصلہ کرتے وقت اس کے مثبت اور منفی اثرات پر بھی غور و فکر ہوتا ہے لیکن جب فیصلہ کر لیا جائے تو پھر یہ پہلو بے معنی ہو جاتا ہے کہ عوامی سطح پر ردعمل کیا ہو گا اگر آپ اس حوالے سے تاریخ پر نظر دوڑانا چاہتے ہیں تو پچاس، ساٹھ، ستر، اسی، نوے کی دہائی اور اس کے بعد گذشتہ بائیس سال بھی سب کے سامنے ہیں۔ آپ صرف ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، محترمہ بینظیر بھٹو کی جلا وطنی اور پھر جلا وطنی کے بعد وطن واپسی اور پھر ان پر ہونے والے حملہ جس میں بینظیر بھٹو دنیا سے رخصت ہوئیں، اس سے پہلے میاں نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ، ان پر قائم مقدمات پھر اس دوران ان کی جیل سے سعودی عرب روانگی وہاں سے انگلینڈ اور پھر وطن واپسی اور پھر وزارت عظمیٰ سے جیل اور جیل سے لندن روانگی اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے وزارت خزانہ سنبھالنے تک تمام حالات و واقعات میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اس دوران اور بھی بہت سے واقعات ہیں جن سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے سبق سیکھنے کے بجائے ایک نئی کتاب لکھنے کی طرف چل نکلتے ہیں۔ شوکت عزیز وزیراعظم بن گئے، معین قریشی وزیراعظم بن گئے، میر ظفر اللہ خان جمالی وزیراعظم بن گئے لیکن اس کے باوجود لوگ ابھی تک پاکستانی سیاست کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سمجھ تو گئے ہیں لیکن اسے تسلیم کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ اسی دوران ایم کیو ایم کے قائد کے ساتھ جو کچھ ہوا کیا لوگ وہ بھول چکے ہیں۔ ایک وقت میں الطاف حسین کی ایک آواز پر کراچی بند ہو جاتا تھا پھر ان کی اس آواز پر ہی پابندی عائد کر دی گئی ان کے ساتھیوں کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کریں وہ متحدہ آج مختلف حصوں میں تقسیم ہے۔ وہ جماعت جس کا ایک ہی قائد تھا آج وہاں قیادت کا شدید بحران نظر آتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب فیصلہ ہو جاتا ہے پھر اس پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ یہ بڑے شہروں کے چند علاقوں میں احتجاج یا مظاہروں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے معاملے میں اب تک شاید ہر چیز طے شدہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران عمران خان کو معاملات بہتر کرنے کا موقع ملا ہو لیکن انہوں نے مفاہمتی راستہ اختیار کرنے اور اپنی مقبولیت کا بہتر استعمال کرنے کا موقع ضائع کیا۔ وہ مخالف سیاسی جماعتوں پر تو حملے کرتے ہی رہتے ہیں لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران انہوں نے ریاستی اداروں کے حوالے سے بھی نہایت جارحانہ رویہ اختیار کیا یہی وجہ ہے آج وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے ہیں اور جن لوگوں کے غلط مشوروں سے وہ یہاں تک پہنچے ہیں وہ اب بھی ان کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ بہرحال عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے گایا تھا اچھے دن آئے ہیں وہ تو نہ آئے لیکن مشکل دن ضرور آئے ہیں۔ عمران خان پہلے بھی اپوزیشن میں رہے لیکن یہ اپوزیشن دو ہزار اٹھارہ والی اپوزیشن سے مکمل طور پر مختلف اور مشکل ہو گی۔
بالخصوص سائفر والے معاملے میں اہم شخصیات کے مابین ہونے والی گفتگو کے منظر عام پر آنے لے بعد حالات مزید خراب ہوئے ہیں کل تک آصف زرداری اور نواز شریف کو نشانہ بنایا جاتا تھا اب عمران خان بھی اسی صف میں جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ وہ شاید آج بھی سمجھ رہے ہیں کہ ملک میں الیکٹیبلز کا دور ختم ہو چکا، ایسے ہی خیالات وہ پہلے بھی رکھتے تھے انہوں نے حکمت عملی تبدیل کی الیکٹیبلز کو جماعت کا حصہ بنایا لیکن آج پھر پی ٹی آئی میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ الیکٹیبلز کا دور ختم ہو چکا لیکن ایسا نہیں ہے چند بڑے شہروں کی مخصوص سیٹوں کی حد تک یہ بات کہی جا سکتی ہے لیکن ملک کے اسی فیصد الیکٹیبلز آج بھی حقیقت ہیں اور وہ وقت آنے پر جو فیصلہ کریں گے اس کے بعد سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلی آنے کے امکانات ہیں۔ جہاں تک آڈیو لیکس کا تعلق ہے اس پر کسی کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں یہاں لوگوں کو ہر وقت باخبر رہنے کا فوبیا ہے اور اندر کی باتوں کو جاننے میں حد سے زیادہ دلچسپی ہے پھر ہمارے اپنے لوگ بھی ہر وقت ہر بات کرنے کے عادی ہیں اس لیے یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔ نہ سائفر محفوظ ہے نہ ٹیلیفون اور یہ سب انگلیاں اداروں پر اٹھاتے ہیں۔ پھر کہتا ہوں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عہدہ سنبھالتے ہی پیٹرول کی قیمت بارہ روپے تریسٹھ پیسے فی لیٹر کمی کر دی ہے۔ ڈیزل کی قیمت 12روپے تیرہ پیسے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں دس روپے اٹھہتر پیسے فی لیٹر کمی کی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ ان قیمتوں کو کم از کم رواں سال کے شروع والی سطح پر ضرور پہنچنا چاہیے اور حکومت مزید کمی کرتی ہے تو یہ عام آدمی کے لیے بڑا تحفہ ہو گا۔ بنیادی طور پر سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا مسئلہ عام آدمی کی زندگی میں سہولت ہے اگر اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں مرحلہ وار کمی لانے اور ذرائع آمدن بڑھانے کے منصوبے پر کام ہوتا ہے تو ناصرف معیشت مستحکم ہو گی بلکہ عام آدمی کی زندگی بھی آسان ہو گی۔ جب تک ایک عام پاکستانی کی زندگی میں آسانی پیدا نہیں ہوتی معیشت کے استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024