آج ہر انسان پریشان ہے کسی کوجانی تو کسی کو مالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان تو غریب جَھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن اور پریشانی میں مبتلاہے۔ اس بے سکونی اور پریشانیوں کے حوالہ سے جب میں نے اپنے ایک بہت ہی پیار کرنے والے قابل احترام دوست افتخار احمد پیرزادہ جن کا تعلق محکمہ ایجوکیشن سے ہے اور یہ ایک علمی و ادبی شخصیت کے حامل ہیں ان سے اکثر میری بیٹھک ہوتی رہتی ہے اس دانشور شخصیت سے چند منٹ کی گفتگو سے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو ملتا رہتا ہے میں نے ان سے چند دن پہلے کہا کہ اس وقت معاشرے کو کیا ہو گیا ہے ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی پریشانی میں گرفتار و مبتلا ہے میں مانتا ہوں کہ اس وقت تقریباً ہر آدمی بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ایک افراتفری کا بھرپور شکار ہے تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے روزگاری کا رونا رو رہی ہیں تقریباً ہر گھر میں نااتفاقی لڑائی جھگڑے جس طرف بھی دیکھیں ہر طرف ایک پھڑ لو پھڑ لو کا عالم ہے حکومتی نمائندوں سمیت اس وقت بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو جائز ناجائز دولت اکٹھی کرنے کے چکر میں لگے ہوئے ہیں کیا ان وجوہات کے ذمہ دار ہم خود ہیں یا یہ ہمارے حکمرانوں کی غلطیاں اور زیادتیوں کی وجہ سے آئے دن کوئی نہ کوئی عذاب الٰہی آتا رہتا ہے جیسا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے کرونا کی وبا نے تمام چھوٹے بڑے سب کاروباری لوگوں کے لیے مسائل ہی مسائل پیدا کر دیئے ہیں اور دوسری طرف حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کوئی اقدامات نہیں کیے ہیں جس کے باعث لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں ان سب مسائل کے باعث ہماری زندگیوں کا سکون تباہ و برباد ہو چکا ہے تو انہوں نے اس پر جو جواب دیا ہے میں چاہتا ہوں کہ اسے قارئین کی نذر کر دوں شاید کے کسی کے دل میں یہ باتیں اتر جائیں اور وہ اپنی بے سکون زندگی اور آخرت کی زندگی کو بہتر بناتے ہوئے دونوں جہانوں میں سکون حاصل کرلے دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کا علاج کرسکتاہے۔ کوئی اقتدار، منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیںبلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔ کسی نے سمجھا کہ سکون صرف مال ودولت کی کثرت وفراوانی میں ہے؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ مال ودولت حاصل ہوا، اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کاروباری تفکرات، ترقی کا شوق، دن بدن بڑھتی ہوئی حرص اور تجارت میں نقصان کے اندیشوں سے اُن کی راتوں کی نیند حرام ہے ۔کسی نے رقص وسرود اور شراب وکباب کو باعثِ سکون جانا مگروقتی اور عارضی لذت کے بعد پھر بھی بے چینی اور اضطراب برقرار۔ کسی نے منشیات کا سہارا لیا مگر اس میں بھی صرف عارضی دل بہلاوا، عارضی فائدہ اور دائمی نقصان۔ کسی نے نت نئے فیشن کرکے دل بہلانے کی کوشش کی؛ مگر سکون وقرار نہ ملا۔ جب کہ دینی ذہن رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار، نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر سکون و راحت اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری اختیارکرنے سے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔ کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب کے درجہ میں ہیں۔ سادہ لوح لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔
ہم کسی دوسرے کا قبلہ درست کرنے کی بجائے ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا چاہیے اور اپنے دماغ کی کیسٹ کو ریورس کر کے دیکھنا چاہیے کہ غلطی کہاں ہے کوتاہی اور گستاخیاں کہاں ہوئی ہے بس پھر ان کی معافی کے لیے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر دعائیں مانگنی چاہیے کیونکہ ابھی تو توبہ کا دروازہ کھلا ہے پھر دیکھنا آپ کی زندگی میں دنیا کا ہی سکون نہیں میسر ہوگا ۔