مسائل میں ڈوبا کراچی سیاست کا محور
صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ کراچی کے اصل وارث وہ یعنی پیپلز پارٹی ہے،مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کراچی کو ان کے سوا کوئی پیرس نہیں بنا سکتا،جماعتی بھائیوں کا نعرہ ہے کہ ''حل صرف جماعت اسلامی '' جبکہ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان بھی کراچی کی وارث ہونے کی دعویدار ہے۔جماعت اسلامی کے پاس نعمت اللہ خان اور عبدلستار افغانی کی کارکردگی اور پی ایس پی کے پاس مصطفیٰ صاحب کے کمالات عوام کے سامنے رکھنے کو ہیں اب باقی کس بنیاد پر یہ باتیں کررہے ہیں خدا جانے۔خیر کوئی بھی سیاسی جماعت ہو بلدیاتی یا جنرل الیکشن قریب آتے ہی انہیں کراچی کا خیال ستانے لگتا ہے اب بھی بلدیاتی انتخابات قریب ہیں اس لئے کراچی سیاست کا محور بن رہا ہے۔ماضی میں بھی وزیراعظم کراچی سے،کام تو اپنے ہی آتے ہیں وغیرہ جیسے نعروں سے اہلیان کراچی سے ووٹ لئے گئے اور اس کے بعد پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہ کیا گیا۔یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ بجٹ دینے والا ملک ہے،کراچی کے لوگ سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں اور مشکل کی گھڑی میں کراچی ہی ملک کی سب سے زیادہ مدد کرتا ہے لیکن کراچی میں اگر سفر کیا جائے تو سڑکوں کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے شاید کراچی ایک پیسہ نہیں کماتا،کراچی میں روزانہ لاکھوں لوگ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سفر کرتے ہیں لیکن شہر میں ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں اگر کوئی پرائیویٹ کمپنی بہتر سروس لے کر آتی بھی ہے تو بااثر ٹرانسپورٹرز اسے چلنے نہیں دیتے،کراچی کے لوگھوں کی جان مال اور عزت محفوظ نہیں اس تمام تر صورتحال میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ کراچی کے لوگ بھی شرکِ جرم ہیں۔ماضی میں کراچی کولسانیت اور قومیت کی زبان پر تقسیم کیا گیا،فرقہ واریت کی سازش کی گئی کراچی والے بھی اس کھیل کا حصہ بنتے رہے کسی کو اس کی معصومیت لے ڈوبی اور کسی کو اس کی خاموشی اور جس نے بولے کی کوشش کی اسے سب نے تنہا چھوڑ دیا گیا لہذا اسے ہمیشہ کیلئے خاموش کرا دیا گیا۔کراچی والوں نے تبدیلی کے دعویداروں کو بھی ووٹ دے کر دیکھ لیا لیکن ویڈیو بنانے اور سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی مچانے کے سوا تبدیل شدہ نمائندے بھی کچھ نہ کرسکے۔کراچی کے حالات اب ماضی سے مختلف ہیں کراچی کے لوگ اب ووٹ دینے میں آزاد ہیں کراچی والوں کو ووٹ دینے سے قبل نمائندوں کا ماضی دیکھنا ہوگا اگر اب بھی سوچے سمجھے بغیر بھیڑوں کی طرح ریوڑ میں شامل ہوگئے تو انجام وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔جماعت اسلامی کے قائدین نے بھی سولا فلائٹ کا فیصلہ کیا ہے۔شاید یہ فیصلہ اس وجہ سے ہو کہ دیگر جماعتوں اور جماعت اسلامی کے نظریات میں فرق ہے لیکن جماعت اسلامی کی قیاد ت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ تنہا پرواز سے کراچی کا مینڈیٹ حاصل کرنا ناممکن ہے۔دیگر جماعتیں بھی ووٹ بینک رکھتی ہیں اور ووٹ تقسیم ہونے سے کراچی کی مئیر شپ پھر کسی اور کے پاس جاسکتی ہے۔کراچی کو حقوق دو کا نعرہ لگا دینا کافی نہیں جماعت اسلامی کو اپنی ماضی کی کارکردگی اور بے داغ ماضی کے عوام کے سامنے رکھ کر عملی سیاسی میدان میں اترنا ہوگا اور اس میدان میں فتح کیلئے انہیں اپنے اتحادیوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔مسلم لیگ نواز،پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف سے ہٹ کر بھی بڑا سیاسی اتحاد بنایا جاسکتا ہے۔جماعت اسلامی،جمیعت علما ئے اسلام،جمیعت علمائے پاکستان،پاک سر زمین پارٹی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک مستحکم گروہ بنایا جاسکتا ہے جو انتخابات میں بھاری اکثریت لینے کا اہل ثابت ہوگا۔جماعت اسلامی اس معاملے میں دوراندیشی سے کام لے تو کراچی کو ایک روشن مستقبل مل سکتا ہے۔