جناب اقبال چیمہ ایک اہم اور مقدس مشن کے لئے برطانیہ سے پھر پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ان کالموں کے قارئین کے لئے ان کا نام اجنبی نہیں ، ان کا شمار ملک کے متنازعہ آبی ماہرین میں ہوتا ہے۔ وہ میاں برکت علی لونا اور شمس الملک کے اس گروپ میںشامل ہیں جو کالاباغ ڈیم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش میںمصروف ہے۔ شمس الملک تو واپڈا کے چیئر مین کی حیثیت سے کالا باغ ڈیم کے حق میں تھے ۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پی کے سے ہے۔ وہ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ میاں برکت علی لونا شہرہ ا ٓفاق کتاب ۔۔کالا باغ ڈیم،پاکستان کے لئے سونے کی کان۔۔ کے مصنف ہیں۔
اقبال چیمہ چند روز اسلام ا ٓباد میں گزارنے کے بعد پیر کو لاہور آئے تو شام کو میری ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ انہوںنے اپنے تین تحقیقی مقالے مجھے تھما دیئے۔ میں ان سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔ اس لئے وقفے وقفے سے ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا رہوں گا،
اس وقت عمران خان ا قتدار میں ہیں۔ انہیں بائیس برس کی طویل جدو جہدکرنا پڑی ہے اور وہ ایک نیاپاکستان بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے خواہاں ہیں۔ اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ عمران خان جس جذبے کے مالک ہیں ، وہ اگر فیصلہ کر لیں کہ پہلے کالا باغ ڈیم بنانا ہے تو ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں، اس لئے کہ وہ کسی رکاوٹ کو خاطر میںلائے بغیر اپنا مقصد اور مشن مکمل کرنا جانتے ہیںبا نوے میں ورلڈ کپ جیتا، یہ بظاہر ناممکن کام تھا۔ پھر یکے بعد دیگرے دو کینسر ہسپتال تعمیر کئے اور کامیابی سے چلا کر دکھائے۔ یہ ورلڈ کپ سے بھی مشکل ترین کام تھا، اب وہ دو مزید کینسر ہسپتال بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی ہمت کو دیکھتے ہوئے یہ کام ناممکن نہیں۔ لیکن اگر وہ اسی ہمت کا مظاہرہ کریں تو کالا باغ ڈیم بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس ڈیم کی تعمیر سے یقینی طور پر اگلے دو الیکشن بھی جیت سکتے ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی مخالفت محض ایک فیشن ہے۔ مخالفت تو پی ایم ہائوس کی موٹی بھینسیں فروخت کرنے میں بھی لاحق تھی۔ قیمتی گاڑیاں نیلام کرنے میں بھی لاحق تھی۔ گورنر ہائوس کھولنے میں بھی لاحق تھی۔ کوئی ایک ہزار ارکان سینیٹ، قومی ا ور صوبائی اسمبلی کے فنڈز روکنے میں بھی تھی، وزیروں سے صوابدیدی فنڈ چھیننے میں بھی تھی۔ سر کاری افسروں کی کاروں کا بیڑہ کم کرنے میں بھی تھی مگر عمران خان کسی مخالفت کو خاطر میں نہیںلائے۔ اس لئے نہیں لائے کہ وہ اپنے مقصد میں سچے تھے۔اقبال چیمہ کہتے ہیں کہ عمران خان کو یہ پتہ چل جائے کہ کالا باغ ڈیم بنانا کس قدرا ٓسان ہے اور اسے موجودہ ٹرم میں مکمل طور پر چالو بھی کیا جا سکتا ہے اورا س سے پاکستان کے چاروں صوبوں کو پانی ا ور بجلی ملے گی جبکہ بھاشا سے خیبر پی کے کو پانی نہیں ملے گا۔ کالا باغ ڈیم سے خیبر پی کے اور پنجاب کو رائلٹی کا حصہ ملے گا جبکہ بھاشا کی ساری رائلٹی گلگت بلتستان کو جائے گی۔ عمران خاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ بھاشا کو بنانے میں بارہ سے چودہ برس لگ سکتے ہیں ۔ اس کی مخالفت بھارت بھی کر رہا ہے اور امریکہ بھی کر رہا ہے کہ یہ کشمیر کے متنازعہ علاقے میں ہو گا۔ بھاشا کے لئے دنیا کا کوئی مالیاتی ادارہ فنڈز دینے کے لئے تیار نہیں جبکہ کالا باغ ڈیم کے فنڈز کی منظوری ہو چکی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی آج ہی پہلی اینٹ رکھی جا سکتی ہے جبکہ بھاشا کی کاغذی کاروائی مکمل کرنے میں دو سے تین سال لگ جائیں گے۔ بھاشا ڈیم سے قراقرم ہائی وے کا سو ڈیڑھ سو کلومیٹر حصہ پانی میں ڈوب جائے گا اوراسے متبادل روٹ پر تعمیر کرنا ہو گا ، یہ علاقہ پہاڑی ہے ۔ سڑک کی متبادل تعمیر تک سی پیک پر پیش رفت نہیں ہو سکے گی۔ اور اس دوران چین ہاتھوں پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے گا۔ وہ سمجھے گا کہ اس کے خلاف سازش ہو گئی۔ بھاشا تک رسائی کے لئے ساڑھے سات سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا ہو گا جبکہ
کالا باغ ڈیم چند کلومیڑ کی رسائی میں ہے۔ کالا باغ ڈیم سے خیبر پی کے میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی لاکھوں مربع ایکڑ اراضی کو سیراب اورا ٓبادکیا جا سکتا ہے جبکہ بھاشا سے اس صوبے کو پانی کا ایک قطرہ تک نہیں ملے گا۔ اس صوبے کو اگر کسی دوسرے ڈیم سے فائدہ پہنچ سکتا ہے تو وہ ہے مہمند ڈیم جس سے پشاور ویلی اور نوشہرہ کو سیلاب سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے مگر نہ تو یہ ڈیم قومی گرڈ کو زیادہ بجلی دے سکتا ہے نہ ملک کی آبپاشی کی قلت کو دور کرنے کے کام آ سکتا ہے۔
عمران خان آج ارادہ کر لیں کہ کالا باغ ڈیم بنانا ہے تو وہ ہر مخالف آواز کو دبا سکتے ہیں۔پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، آبادی کے اعتبار سے بھی اور زیر کاشت رقبے کے لحاظ سے بھی۔ پنجاب کبھی اس منصوبے کی مخالفت نہیں کرے گا۔ خیبر پی کے میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے۔ اسے پارٹی ڈسپلن کا پابند بنانے میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ بلوچستان ا ور سندھ کے گورنرز کی ڈیوٹی لگائی جائے کہ وہ اپنے صوبوں میں رائے عامہ ہموار کریں۔ اگر کراچی میں ایم کیو ایم کی طاقت کو کچلا جا سکتا ہے، فاٹا میں دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لشکر کو شکست دی جا سکتی ہے۔ بلوچستان میں ایک نہیں ،دو نہیں، تین نہیں، چار نہیں،بار بار آپریشن کر کے حالات اس قدرنارمل کر دیئے گئے ہیں کہ جن اسکولوںمیں قومی ترانہ پڑھنا مشکل ہو رہا تھا اور دن یا رات کو سڑک پر سفر کرنا ممکن نہیں تھا ، اب وہاں راوی ہر سو چین لکھتا ہے۔ نواز شریف کی اکثریتی حکومت کو ایک نہیں دو بار ختم کیا جاسکتا ہے، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے والے بھٹو کو پھانسی دی جا سکتی ہے اور ان کاموں کے لئے کسی مخالفت کی پروا نہیں کی جاتی تو کالا باغ ڈیم جو ہماری اور اگلی نسلوں کی بقا کا ضامن ہے ،ا س کی تعمیر میں ساری دنیا اکٹھی ہو کر مخالفت شروع کر دے تو اسے نہیں، پاکستان کو کامیابی ملے گی۔کیونکہ یہ منصوبہ پاکستان ا ورا س کے بیس کروڑ عوام ا ور اگلی نسلوں کے مفاد میں ہے۔ یہ قومی بقا اور سلامتی کا ضامن ہے، ہمیں ایٹم بموں سے پینے کو پانی نہیں ملے گا۔ ہمارے غوری یا ابدالی میزائل ہمارے لئے بجلی نہیں بنا سکتے بلکہ کالا باغ ڈیم اور ا سکے ساتھ بھاشا کی تعمیر اور ان کے بعد ہرآبی ذخیرے کی تعمیر ہی ہمیں پینے کے پانی اور کھیتوں کے لئے پانی اور گھروں، دفتروں، دکانوں اور کارخانوں کے لئے سستی بجلی دے سکتی ہے، تھرمل بجلی ہماری قوت خرید سے باہر ہے، کوئلے کی بجلی منہ کالا کرنے کے مترادف ہے، ونڈ بجلی ایک ہوائی خواب ہے۔ قدرت نے ہمیں پانی کی جو نعمت عطاکر رکھی ہے، اسے ضائع ہونے سے بچا کر ہم اپنی زندگی کو، اپنے کھیتوں کو اپنے کاروبار کو اور اپنے کارخانوں کو ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
کالا باغ ڈیم چار سے پانچ سال میںمکمل ہو گا، بھاشا بارہ سے چودہ برس میں، کالا باغ ڈیم کے لئے فنڈنگ موجود ہے، بھاشا کے لیئے چندے پر انحصار کیا جا رہا ہے ، اس کے لئے اگلے ایک سوبرس فنڈ ریزنگ میں لگ جائیں گے تب تک اس کی کاسٹ بھی دگنی چوگنی ہو جائے گی۔ کالا باغ ڈیم کے لئے کل رقم چھ ارب ڈالر اور بھاشا کے لئے ساڑھے 12 ارب ڈالر درکار ہیں۔کالا باغ ڈیم صرف چار پانچ برس میں چھتیس سو میگا واٹ ا ور بھاشا ڈیم بارہ چودہ برس بعد پینتالیس سو میگا واٹ دے گا۔ کالاباغ ڈیم میں تین چار سال میںچھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ اور بھاشا ڈیم میں بارہ چودہ برس بعد چھ اعشاریہ چار ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہو گا۔کالا باغ ڈیم زلزلے کے علاقے سے باہر جبکہ بھاشا ڈیم ہر وقت زلزلے کے خطرے سے دو چار ہو سکتا ہے،بھاشا ڈیم ٹوٹ گیا تو پورا پاکستان بہہ کر بحیرہ عرب میں ڈوب جائے گا۔
اقبال چیمہ نے کہا کہ کون ہے جو جلد بازی میں بھاشا کا خطرہ مول لے ۔ ا س کے لئے انتہائی مہارت سے ڈیزائننگ کرنا ہو گی۔ا س پر وقت لگے گا ۔ کالا باغ ڈیم کی پلاننگ ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ کل صبح اس کی پہلی اینٹ رکھی جا سکتی ہے۔ عمران خان کی اسی ٹرم میں یہ مکمل ہو جائے گا اور اگلی ٹرم میں کامیابی بھی یقینی ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ بھاشا پر کام جاری رکھا جائے تو تیسری ٹرم تک وہ بھی مکمل۔
اس سے قیمتی مشورہ اور کون دے سکتا ہے۔ اقبال چیمہ کا اپنا کوئی مفاد پاکستان میںنہیں۔ وہ اوور سیزر پاکستانی ہیں۔ صرف وطن عزیز کے لئے تڑپ رکھتے ہیں اسی کے پیٹے میں ہیں۔ میاں برکت علی لونا بھی ا سی کے پیٹے میں اور اپنی زندگی میں پاکستان کو سرسبز دیکھنے کی آرزو سے سرشار ہیں۔ اور کون ہے جو شمس الملک کی پیشہ ورانہ اہلیت کو چیلنج کرسکے۔
بسم اللہ کیجئے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کیجئے۔ عدلیہ ساتھ ہے۔ فوج بھی ساتھ دے گی کہ یہ قومی فوج ہے۔بس عمران خان کے فیصلے کا سب کو انتظار ہے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024