24000 انسانی جانوں کا قتل، عصمت دری کے 18000 واقعات ، جن میں خواتین کے ساتھ ساتھ نو عمر بچیاں بھی شامل ، گولیوںسے چھلنی زخمی 4000 افراد، تشدد کے ذریعے زخمی 12000 افراد ، 1,50,000مکانا ت کا جلایا جانا ، یتیم بچے 50 ہزار ، ہر ماہ تقریبا 60 ایسے بچے جنہوں نے عصمت دری کے نتیجے میں جنم لیا ، یہ صورتحال کسی جنگ کے بعد کی صورتحال نہیں بلکہ روہنگونین مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی ایک مختصر رپورٹ ہے یہ ہولناک داستان اور اعداد و شمار اسی کرہ ارض پر گزشتہ ایک سال میں ظہور پزیر ہونے والے واقعات ہیں جو فرضی و خیالی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی NGO انٹاربوانٹرنیشنل ڈولپمنٹ نے جس میں آسٹریلیا ، بنگلہ دیش، کینیڈا، ناروے اور فلپائن کے محققین شامل ہیں۔ تحقیق کے بعد 25 اگست سے لیکر اس سال تک کے اعدادوشمار جمع کئے جائیں جو برما یعنی میانمار روہنگنیا مسلمانوں کے متعلق ہیں ، ان مسلمانوںپر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم پر ہر انسان خون کے آنسو روتا ہے۔ 163 طاقتور ممالک کی تنظیم کا ادارہ حقوق انسانی بھی اسی قسم کے اعداد شمارپیش کرتاہے ، دنیا بھر میں بڑی طاقت مانے جانے والے امریکہ کے حالیہ صدر ٹرمپ بھی روہنگنیا میں ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہیں ، مگر افسوس کہ یہ مظالم یہودیوں اور غیرمسلموںپر نہیں بلکہ مسلمانوںپر ڈھائے جارہے ہیں اسلئے مذمت کی حد تک پہنچ کر کام ختم ہوجاتاہے ، روہنگنیا کے فوجی دہشت گردوں کی روک ٹوک کا اشارہ نہیں۔مختصر تاریخ اس علاقے کی یہ ہے کہ ریاست اراکان کے علاقے میں اسلام کا داخلہ خلیفہ ہاروںرشید کے عہدمیں عرب تجار کے توسط سے ہوا ۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر رفتہ رفتہ روھانگ کے پرانے باشندے اسلام قبول کرنے لگے ، ایک ترک النسل سلطان سلیمان شاہ نے اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی۔اراکان کے علاقے پر مسلمانوں نے ساڑھے تین سو سال حکومت کی ۔ 1784ء میں ایک برمی راجہ نے اراکان پر قبضہ کرلیا ، بعد میں انگریز حکمران رہے طویل جدوجہد کے بعد 1948 میں انگریزوںسے آزادی تو مل گئی مگر کمیونسٹ فوجی جنتا کا راج قائم ہوا برما کے مسلم زعماء نے قیام پاکستان کی تحریک کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کرکے جنکی دلی خواہش تھی کہ اراکان کا الحاق پاکستان سے کیاجائے اراکان کے کچھ حصے کو اس وقت کے مشرقی پاکستان سے ملا دیا گیا جو پاکستان سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش کی شکل اختیار کرگیا ۔ روہنگیا مسلمان ہمیشہ نسلی اور مذہبی نفرتوں کا شکار رہے ہیں برما کے بودھوں کی دیرینہ خواہش کے مطابق اراکان کے خالص بودھا اسٹیٹ بنانے کی راہ میں روہنگنیا مسلمان سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔ اب وجہ سے قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ 1942 ء سے جاری ہے ۔ اس قتل عام اورانسانست سوز مظالم کی بناء پر وہا ںکے مسلمان مسلسل نقل مکانی کررہے ہیں اور نہائت نچلے درجے کی زندگی گزار رہے ہیں اسوقت بنگلہ دیش 13 لاکھ‘ میانمار 4 لاکھ‘ بھارت میں 40 ہزار‘ سعودی عرب میں تقریباً 5 لاکھ‘ تھائی لینڈ میں 15 ہزار اور انڈونیشیا میں تقریباً ایک ہزار وہنگیائی پناہ گزین پنا لئے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں سب سے زیادہ بہتر رویہ بہ حیثیت مسلمانوں کی مدد کے جذبے کے سعودی عرب اور پاکستان کا ہے ۔ سعودی عرب نے نقل مکانی کرنے والے ان روہنگیائی مسلمانوں کو سعودی عرب میں رہائش کے اقامے جاری کررکھے ہیں جنکے لئے دیگر لوگوں کی طرح کسی مقامی ادارے یا شخص کی کفالت ضروری نہیں۔ دوم پاکستان حکومت نے انہیںپاکستانی پاسپورٹ کی سہولت دی ہوئی ہے جسکی تجدید بھی کی جاتی ہے ، پاکستان کے حوالے سے ان برمی مسلمانوں کو جو یہاں روزگار کے چھوٹے چھوٹے ذرائع سے وابستہ ہیں پاکستانی پاسپورٹ کی مد میں عام پاکستانیوںسے زیادہ فیس وصول کی جاتی ہے جو انکے لئے مشکل ہوتی ہے ۔ روھینگیا مسلمان جو اس ناگفتہ حالت میں روہینگیا میںرہتے ہیں انہیں شادی کیلئے 750 ڈالر کی بھاری فیس ادا کرنا پڑتی ہے ، بچہ کی پیدائش کے سلسلے میں فی بچہ 150ڈالر انتظامیہ کو اداکرنا پڑتا ہے ، تعلیم پر پابندی ہے ، زمین کی ملکیت نہیںہوسکتی۔ روہنگیا مسلمان اس وقت مطالبہ کرتے ہیں کہ ان پر ہونے والے مظالم کا تدارک کیا جائے ، قتل عام بند کیاجائے ، روھنگیا ء کیلئے سیف زون قائم کیاجائے ، روہنگیا مسلمانوںکو اپنے اپنے گھروںاور زمینوںپر جانے کی اجازت دی جائے ۔ مختلف ممالک کے کیمپوںمیں موجود روہنگین نہایت کسمپرسی کی زندگی گزار رہیں جس پر عالمی اداروں کی نظر نہیں اورصرف اعداد شمار اکھٹے کرنا ، مظالم کی داستانیں معلوم کرنے تک محدود ہیں ، جبکہ یہ مسئلہ ہنگامی بنیادو ں پر حل کرنا ، وہاں تعلیم ، علاج معالجہ ، کھانے پینے کا انتظام کرنا ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے ، مہاجرین کے کیمپوںمیں آئے دن وبائی امراض پھیلتے رہتے ہیں۔ مون سون میں بیکٹریا سے ہزاروںبچے جاںبحق ہوجاتے ہیں۔ پانی کیلئے کنووںکی فوری ضرورت ہے ، مشکل دشوار گزار راستوں کی وجہ سے وہاںکام کرنے والے انسانی ہمدردی کے ادارے غذاء پہنچانے میںمشکلات کا سامنا کرتے ہیں ان مصیبت زدہ لوگوںکی مدد کیلئے امریکہ سے اور مختلف ممالک سے سوشل ورک کرنے والے فنڈز جمع کرنے کے ساتھ کیمپوں میں جاکر خدمات مہیا کرتے ہیں جماعت اسلامی بھی وہاں مختلف نام سے ان کیمپوںمیں امداد فراہم کررہی ہے۔مسلمان چاہیں کشمیر ہو جہاںبھارت کے مظالم سے انسانی جانیں سستی ہیں ، فلسطین ہو جہاں یہودی سازشیں اور گولیاںسڑکوںپر معصوموںکا خون بہار رہی ہیں ۔ عالمی ادارے ذکر کرتے ہیں قراردادیں پاس کرتے ہیں جس سے ظلم کرنے والے شیطانوں کی موٹی چمڑی پر کوئی اثر نہیںہوتا ، آج مسلم دنیا الحمدللہ تمام مادی وسائل سے بھرپور ہے مگر کمی ہے تو اس اتحاد کی جسکے نہ ہونے کی وجہ سے یہودی، اور مسلمانوںکے ازلی دشمن فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری خواتین ، بچوں ، بوڑھوں، نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اگر تمام مسلم ممالک اپنے فروعی اختلافات مٹا کر اور بھلا کر مکہ اور مدینہ والے سعودی عرب کی قیادت میں یک آواز ہوجائیں تو ہم نہ صرف روز قیامت بلکہ اپنی آنے والی نسل کو بھی جواب دہ ہوسکیں گے ۔ اللہ مظلوم مسلمانوں کی وہ جہاں کہیں بھی ہیںم‘دد فرمائے آمین۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38