مخصوص لابی کی خادم الحرمین الشریفین پر تنقید !
حادثے بتا کر نہیں ہوتے اور انکی جتنی بھی وجوہات جان لی جائیں یہ اس بات کی ضمانت نہیں فراہم کرتے کہ آئندہ حادثہ نہیں ہوگا دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک بھی بہترین انتظام و انصرام کے ساتھ یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ حادثے نہ ہوں یہاں تک کے سائنس کی دنیا جہاں پر ہر چیز حساب و کتا ب کے ساتھ کی جاتی ہے وہ بھی حادثات سے محفوظ نہیں رہی
منی میں ہونے والا حادثہ بہت افسوسناک ہے لیکن اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک مخصوص لابی اسکو اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے اور سعودیہ کی حکومت کو اس سارے قضیے کا ذمہ وار ٹھہرا رہی ہے دنیا میں اگر ہونے والی بڑی بھگڈروں کی فہرست کو دیکھا جائے تو یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ عظیم مذہبی اجتماعات میں ایسی بھگڈر مچنا تاریخ کا حصہ رہا ہے صرف ہمسایہ ملک بھارت میں ہر سال سینکڑوں لوگ ایسے واقعات میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
1954 میں اترپردیش میں کھمبھ میلا کے دوران 500 سے 800 افراد بھگڈر مچنے کے نتیجہ میں جان کی بازی ہار گئے اسوقت اس میلا میں چالیس سے پچاس لاکھ لوگ شریک ہوتے تھے2003 میں دنیا کے سب سے بڑے مذہبی اجتماع کھمبھ میلا کے دوران 39 لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 125 زخمی ہوئے یاد رہے کہ یہ میلا ہر 12 سال کے بعد منعقد ہوتا ہے نہ کے ہر سال2005 میں 258 لوگ ممبئی میں جان کی بازی ہار گئے2008 میں راجھستان میں پہاڑی پر بنے ہوئے ایک مندر میں مچنے والی بھگڈر میں 147 لوگ ہلاک ہوئے۔2011 میں کیرالہ میں 106 جانوں کا ضیاع ہو۔ا2013 میں مدھیہ پردیش میں 89 لوگ مارے گئے۔2013 میں ہی کھمبھ میلا کے دوران 36 لوگ ہلاک ہوئے 2014 اور 2015 میں بالترتیب 32 اور 22 لوگ مارے گئے یہ امر صرف انڈیا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک بھی اپنے بہترین انتظام و انصرام کے باوجود ان حادثات سے نہیں بچ سکے 1964 میں لیما ، پیرو میں ہونے والے ایک فٹ بال میچ کے دوران مچنے والی بھگڈر میں کم و بیش 300 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے1989 میں شیف فیلڈ برطانیہ میں ہونے والے ایک فٹ بال میچ کے دوران بھگڈر مچ گئی جسمیں 93 لوگ ہلاک ہوئے اور سینکڑوں زخمی2003 میں نیوجرسی کے ایک ریسٹورنٹ میں رونما ہونے والی بھگڈر کے نتیجے میں 96 لوگ موت کے گھاٹ اتر گئے اور 187 زخمی ہوئےیہاں تک کے اس مخصوص لابی کے اپنے پسندیدہ ترین ممالک میں سینکڑوں لوگ ایسے افسوسناک واقعات میں جان کی بازی ہار گئے بغداد میں 2005 میں محرم کے موقع پر ہونے والی مشہور زمانہ بھگڈر میں کم و بیش 1000 زائرین جان کی بازی ہار گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ یہ مخصوص لابی خود حرم پاک میں کئی حادثوں کی ذمہ دار ہے 1987 میں اس نے حج کے دوران ہنگامہ کردیا جسمیں 400 سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے۔ 1989 میں 16 کویتی شیعہ کو حرم کے پاس دوہرا حملہ کرنے کے جرم میں جسمیں کئی لوگ مارے گئے موت کی سزا دی گئی اور ابھی بھی بعض سعودی حلقوں کی طرف سے یہ اطلاع سامنے آرہی ہے کہ منی کا حادثہ ا نکی طرف سے جان بوجھ کر کروایا گیا۔
ان تمام واقعات پر نظر ڈالنے سے علم ہوتا ہے کہ بھگڈر مچنا کسی بھی عظیم مذہبی اجتماع یا اجتماع میں عین ممکن ہے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ حج جیسا اجتماع ہر سال منعقد نہیں ہوتا ہمیں حج کے بارے میں چند حقائق ہمیشہ مد نظر رکھنے چاہئیں یہاں پر لاکھوں عازمین حج کو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی مخصوص جگہ پر مراسم حج ادا کرنے ہوتے ہیں ، دنیا کے کسی بھی اور مذہبی اجتماع میں اتنی زیادہ قومتیوں و ملتوں کے افراد اکٹھے نہیں ہوتے جنکی زبانیں تک ایکدوسرے سے مختلف ہوں، 1975 سے لیکر اب تک ایک اندازے کے مطابق 8 کروڑ سے زیادہ افراد فریضہ حج ادا کرچکے ہیں اور منی کے حالیہ حادثے کو ملا کر کل شہادتوں کی تعداد 5000 سے بھی کم ہے ،اور یہ شاندار حج انتظامات کے بغیر ممکن نہیں ہے ہمیں اس بات پر اصرار نہیں ہے کہ حج میں ہونے والی شہادتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے اور مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کی مناسب تدابیر نہیں کرنی چاہئیں لیکن اس لابی کی طرف سے خادمین حرمین الشریفین کو نشانہ بنانا اور حج کے اعلی ترین انتظامات جو کے عمرہ یا حج پر جانے والے ہر شخص کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں پر تنقید کرنا سمجھ سے بالاتر ہے جب کے یہ معلوم ہے کہ بھگڈر انسانی غلطی کیوجہ سے رونما ہوتی ہے اور جب یہ رونما ہوتی ہے تو مناسب ترین انتظامات بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں منی میں ہونے والا حادثہ اس پر دلیل ہے دنیا کے کسی بھی اور ملک کو اجتماع کے حوالے سے ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جیسا ہر سال سعودی حکومت کو کرنا پڑتا ہے اور یہ امر صرف حج کے دنوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ پورے سال میں دن یا رات کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا جب حرمین میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگ موجود نہ ہوں ان سب لوگوں کی حفاظت و نگہداشت سعودی حکومت کے انتہائی شاندار اقدامات کی بدولت ہی ممکن ہے جن میں منی جیسے حادثے انسانی غلطی ہی کہلائی جاسکتی ہے لیکن یہ مخصوص لابی ان حقائق کو جاننے کے باوجود سعودی حکومت پر بے جا تنقید کیے جارہی ہے جسمیں خلوص کی بجائے عسکری میدان میں پہنچنے والی چند شکستوں کا بدلہ حج جیسی عبادت کے پردے میں لینے کی خواہش زیادہ محسوس ہوتی ہے۔