جنرل اسمبلی سے امن کے متلاشی وزیراعظم کا خطاب
وزیر اعظم محمد نواز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور نیویارک میں پاکستانی وزیر اعظم کی بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات سیاسی حلقوں میں موضوع گفتگو بنی ہوئی ہے محمد نوازشریف کا وزیر اعظم وزیر اعظم کی حیثیت سے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے تیسرا خطاب تھا اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے سربراہان مملکت وحکومت کا خطاب روایتی نوعیت کا ہوتا ہے تاہم اقوام متحدہ کایہ اجتماع عالمی رہنمائوں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرتا ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تمام ممالک کے نمائندوں کو خطاب کا موقع فراہم کیا جاتا ہے برصغیر پاک وہند کے عوام کو پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے خطاب سے دلچسپی ہوتی ہے اس موقع پر وزیر اعظم محمد نواز شریف کی امریکی صدر اوبامہ سے ملاقات تو نہیں ہو ئی البتہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کرکے ان کے آئندہ ماہ کے دورہ امریکہ کی تفصیلات طے کی ہیں امریکی دفتر خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ملاقات میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کی ناکامی صورت میں بھرپور کارروائی کا یقین دلایا ہے وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں جہاں عالمی مسائل پر اظہارخیال کیا وہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کے تاریخی موقف اعادہ کیا وہ پا کستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اقوام عالم کو ڈرون حملوں کے مضمرات سے آگاہ کیا ہے اور کہا ہے کہ’’ ڈرون حملے جوابی ردعمل پیدا کرتے ہیں، امریکہ کو ڈرون حملے بند کر دینے چاہیں ‘یہ حملے پاکستان سے شدت پسندی کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے بھارت کے ردعمل کی پروا کئے بغیراقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا اور کہا کہ ’’ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے کردار اداکرناہوگا ‘ کشمیریوں کا حق خود رائے دہی کچلانہیں جاسکتا جموں اورکشمیر کا مسئلہ 1948 سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہے۔ کشمیریوں کی آواز سنی جانی چاہیے کشمیریوں کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پوری قوت سے مسئلہ کشمیر اٹھانے پر کشمیر کے آر پار خراج تحسین پیش کیا گیا انہوں نے کشیریوں کے حق خود ارادیت کا مطالبہ کرکے کشمیریوں کے دل جیت لئے ہیں ماضی میں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی خاطر پاکستان کے وزرائے اعظم کو مسئلہ کشمیر فراموش کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی لیکن میاں نواز شریف نے نتائج کی پروا کئے بغیر اقوام عالم کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ان کے اندر پائی جانے والی خود اعتمادی اور مدبرانہ سوچ کا عکس تھا انہوں نے اپنی تقریر کے الفاظ کی ادائیگی پر اعتماد لہجے میں کی۔ ان کا خطاب امن کے متلاشی رہنماء کا خطاب تھا اگلے روز بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران کشمیر کو’’ اٹوٹ انگ‘‘ قرار دے کر میاں نواز شریف کا چڑھایا ہوا ادھار اتارنے کی کوشش کی ہے اس پر طرفہ تماشا یہ کہ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی پر وزیراعظم نواز شریف کی پاک بھارت مذاکرات کے لیے کوششوں کو نقصان پہنچا نے کا الزام عائد کر دیا اور میاں نواز شریف کو مشورہ دیا کہ انہیں پاک فوج اورآئی ایس آئی پر کنٹرول کرنے کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا سلمان خورشید نے اس بات پر بھی اصرار کیا کہ بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے دوران پاکستان کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ درست ہیں یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ماضی میں بھی بھارت کی جانب سے اس نوعیت کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ۔ وہ حکومت پاکستان اورفوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کا نوٹس کسی حکومتی عہدیدار نے نہیں لیا البتہ یہ فریضہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان لو انجام دینا پڑا انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کو بلاجواز، بے بنیاد اور سفارتی آداب کے منافی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ بھارتی حکمران ’’ پاکستان دشمن منجن ‘‘بیچنے کے لئے لغو اور بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے خطے میں قیام امن کی کوششوں کا جواب غیر ضروری الزامات اور ہٹ دھرمی کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی پا ئی جاتی ہے ، وہ بین الاقوامی اور قومی سلامتی کے امور پر ایک ہی ’’صفحہ‘‘ پر ہیں وزیر اعظم محمد نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان ملاقات سے قبل ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کے بھارتی وزیر اعظم کو اس ’‘دیہاتی عورت ‘‘ سے تشبہہ دینے کے ریمارکس ٹیلی کاسٹ کر دئیے جو اپنے شوہر کے ساتھ جھگڑے میں دوسروں کوبھی ملوث کر دیتی ہے ان ریمارکس سے دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہو گئی بھلا ہو س بھارتی خاتون صحافی برکھا دت کا جنہوں نے وزیراعظم نوازشریف کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے من موہن سنگھ کو’’ دیہاتی عورت‘‘ نہیں کہا ان کی گفتگو توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہے میاں نوازشریف کا کہنا تھا کہ منموہن سنگھ کا پاکستان کے بارے میں امریکی صدر سے شکایت کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی’’ دیہاتی عورت ‘‘اپنے شوہر سے جھگڑے میں تیسرے فریق کو ملوث کرلے۔ برکھا دت نے کہا کہ یہ صرف ایک مثال تھی جو غیر رسمی گفتگو میں آف دی ریکارڈ کی گئی تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے نامزد امیدوار نریندر مودی نے منموہن سنگھ کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور کہا کہ منموہن کی عزت انکی اپنی جماعت نہیں کرتی تو پاکستانی وزیر اعظم کیا کریں گے؟ بہر حال وزیر اعظم محمد نواز شریف کی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے دبائو کے ماحول میں ملاقات ہو ہی گئی ،سوا گھنٹے کی ملاقات میں کوئی بریک تھرو ہوا اور نہ ہی برف پگھلی، نوازمنموہن ملاقات الزامات اور وضاحتوں تک ہی محدود رہی ۔میاں نواز شریف اپنی بات منوا سکے اور نہ ہی منموہن کے موقف کو پذیرائی حاصل ہوئی منموہن کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے الزامات نے دو طرفہ گرمجوشی کو سرمہری میں تبدیل کر دیا اگر یہ کہا جائے کہ دونوں وزرائے اعظم کر درمیان ملاقات کا ہو ہپی جانا بڑی کامیابی ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گا اس ملاقات کے نتیجہ میں اور کچھ حاصل تو نہ ہوا البتہ ’’خط حد متارکہ ‘‘ پرکشیدگی کم ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔جب سے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی ہے کبھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا جاتا ہے تو کبھی پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی نوید سنا کر عوام کی برداشت کا امتحان لیا جاتا ہے بھارت میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی گئی لیکن پاکستان میں تیل کی قیمتوں اضافہ کر دیا گیا اسے عوام پر’’ بجلی اور پٹرول اور بم‘‘ گرانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے حکومت کی جانب سے عام آدمی پر گرائے جانے والے ان ’’بموں‘‘ سے پورے ملک میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی حکومت مخالف عوام کو مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے پر طعنے دے رہے ہیں موبائل فون پر ایک ایس ایم ایس چل رہا ہے ’’عوام کو مبارک ہو عوام کا خون مشرف اور زرداری نچوڑ گئے اب شیر گوشت کھا رہا ہے رہ گئی کھال تووہ ہے ہی شوکت خانم کی‘‘پچھلے چار ماہ کے دوران بجلی لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی کے سوا حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا حکومت کے اقتصادی مینجرز نے چار ماہ میں ہی نواز شریف حکومت کو مقبولیت کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں تک پہنچنے میں پیپلز پارٹی کو پانچ سال سفر کرنا پڑا اپوزیشن جماعتوں نے بجلی اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کو مسترد کردیا ہے اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تحاریک التوا جمع کرا دی ہیںمسلم لیگی ارکان اسمبلی کے لئے اپنے حلقوں میں واپس جانا مشکل ہو گیا ہے ان کے ووٹرز ہاتھوں میں بل اٹھائے ان کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے ہیں سپریم کورٹ نے بھی بجلی کے نرخوں میں اضافہ کا سپریم کورٹ نے بھی نوٹس لے لیا ہے قبل اس کے سپریم کورٹ کوئی حکم جاری کردے وزیر اعظم نواز شریف کو فی الفور بجلی اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔