سرکاری تعلیمی اداروں کا حسن کارکردگی
کسی بھی قوم کی ترقی کا دارومدار اس کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے جانچا جاتا ہے۔ جب ہم پڑھا کرتے تھے تو ملتان میں سرکاری تعلیمی ادارے تعداد میں نہایت کم ہوا کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں کی اس کمی کو پورا کرنے کیلئے گیلانی خاندان نے انجمن اسلامیہ کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی اور انہوں نے اہل ملتان کی نہ صرف ہائی سکول کی سطح پر خدمت کی بلکہ ولائت حسین اسلامیہ کالج، علمدار حسین کالج، اسلامیہ لاءکالج اور گرلز کالج بھی قائم کئے۔ شومئی قسمی یہ ادارے سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بغیر کسی منصوبے اور پلاننگ کے ان اداروں کو نیشنلائزڈ کر لیا۔ آنے والے وقتوں میں یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا کیونکہ نئی حکومتوں نے ان نیشنلائزڈ تعلیمی اداروں کو قومیانے کے بعد ان کی حالت بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہ دی جس کے بعد لوگوں نے آہستہ آہستہ ان سرکاری تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلانا بند کر دیا اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے شاندار تعلیم کا جھانسہ دے کر والدین اور بچوں کو اپنی طرف راغب کر لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی سرکاری تعلیمی ادارے عمارت، اساتذہ کرام کی تعلیمی قابلیت اور کارکردگی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بدرجہا بہتر ہیں۔ آج کل گورنمنٹ پنجاب سرکاری تعلیمی اداروں میں بہترین گرانٹس دے رہی ہے۔ اس پر عمارتوں کی حالت بالکل بدل گئی ہے۔ اساتذہ کرام کو میرٹ پر نوکریاں دی جا رہی ہیں جس کی وجہ سے سکولوں میں تعلیمی معیار بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں سے ایسے ایسے طالب علم بورڈ میں پوزیشن لے رہے ہیں جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جن والدین کے پاس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کیلئے کوئی ذرائع نہیں تھے ان کے بچے بورڈز کے سالانہ امتحان میں پوزیشن لے رہے ہیں اس کا تمام کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے وژن کو جاتا ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے عمارت، طلباءکی تعداد، اساتذہ کرام کی قابلیت اور بہترین رزلٹ کی بنیاد پر بہت آگے جا رہے ہیں۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں ملتان شہر کے مرکز حسین آگاہی میں ایک چھوٹا سا گورنمنٹ ہائی سکول ہے جس کا نام پہلے کوئی جانتا بھی نہیں تھا اس کا نام گورنمنٹ پاکستان ہائی سکول ہے۔ آج سے دس سال پہلے اس سکول کے سامنے اینٹوں اور کوڑے کا ڈھیر لگا ہوا ہوتا تھا پہلی سے لیکر دسویں تک 100 طلباءبھی اس میں داخلہ نہیں لیتے تھے یہاں پر آنے والے ہیڈ ماسٹرز اور اساتذہ نے محنت سے کام کیا آج اس کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔ پچھلے پانچ سال کے میٹرک کے رزلٹ 85% فیصد سے اوپر ہیں اس سکول میں گورنمنٹ آف پنجاب کی مدد سے 2017,2015,2012ءسے نئے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ سکول نہایت خوبصورت اور شاندار لگتا ہے اعلیٰ قسم کی کمپیوٹر لیب دیکھ کر اسکی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے۔ سکول میں چھوٹے بچوں کیلئے کڈز روم اپنی مثال آپ ہیں۔ ہیڈ ماسٹر سجاد حسین بلوچ اور ان کا عملہ نہایت جانفشانی سے کام کر رہا ہے۔ یہ مستقبل میں اس علاقے کی تعلیمی ترقی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گورنمنٹ ہائی سکول دولت گیٹ ہے اس کے پرنسپل محمد رمضان انجم نہایت منجھے ہوئے ایڈمنسٹریٹر ہیں۔ ان کے سکول میں داخل خارج کا نظام قابل تحسین ہے جس کے انچارج حافظ محمد علی ایس ایس ٹی ہیں اس میں بھی بچوں کے نئے داخلے کے پیش نظر کافی کمرے تعمیر کئے گئے ہیں۔ لان صاف ستھرے ہیں ادارے کا ڈسپلن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ گورنمنٹ نے ان اداروں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے۔ گورنمنٹ بخاری پبلک سکول میں ملتان کے بہت بڑے ماہر تعلیم عظمت علی بابر بی ایس 20 کی پوسٹ پر بطور پرنسپل کام کر رہے ہیں اس کی عمارت طلباءکی تعداد کی نسبت بہت چھوٹی ہے۔ سائنس لیبارٹری کیلئے کوئی جگہ مختص نہیں ہے اس میں1500 سے زائد طلباءتعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے میٹرک کے نتائج 60% فیصد سے زائد آتے ہیں۔ اساتذہ کی تعداد 47 ہے اس جیسے شاندار سکول کیلئے جگہ کا حصول بہت ضروری ہے۔ اس کو گورنمنٹ ہائر سیکنڈری کا درجہ دینا چاہتی ہے لیکن جگہ کی کمی اس میں حائل ہے۔
ملتان کے گنجان آباد علاقے منظور آباد میں حال ہی میں گورنمنٹ نے میونسپل کارپوریشن کے مڈل سکول گورنمنٹ کی تحویل میں لیکر اس کو ہائی کا درجہ دیا ہے۔ اس سکول کا نام گورنمنٹ ہائی سکول منظور آباد ہے اس کے ہیڈ ماسٹر ظفر علی گجر ہیں سکول میں طلباءکی تعداد 400 سے زائد ہے۔ اساتذہ کرام کی تعداد 30 سے اوپر ہے۔ سکول کو نہایت خوبصورت بنایا گیا ہے۔ تمام کمرے قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبالؒ اور سائنسدانوں کے کارناموں اور چارٹس سے مزین ہیں۔ اس کے استاد ناصر محمود اور ان کے رفقاءاس سکول کی شہرت کو چا رچاند لگا رہے ہیں۔ یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت پنجاب نے جب سے تعلیمی اداروں کی حالت زار کو بہتر بنانے پر توجہ دی ہے ہیڈ ماسٹرز حضرات اور اساتذہ کرام نے بھی ان کو بہتر سے بہتر بنانے پر اپنی مساعی جمیلہ سے کام لیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ نئے تعلیمی اداروں کے اجراءسے پہلے ان کیلئے جگہ کا بہترین انتظام کرے۔ کھیلوں کیلئے میدان فراہم کرے تاکہ طلباءکی سکول سطح پر غیر نصابی سرگرمیوں کو ترقی دی جا سکے اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کی عزت و توقیر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ کئی سکولوں میں سنا گیا ہے کہ اساتذہ کرام کے کمروں سے کرسی اٹھا لی گئی ہے اگر گورنمنٹ اپنے اداروں میں سہولت نہیں دے گی اساتذہ کی عزت و توقیر نہیں کرے گی تو زبردستی استاد سے تعلیم حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ان کا وقار داﺅ پر نہ لگایا جائے۔ ہیڈ ماسٹر کو سرنڈر کرنے کا اختیار دے کر حکومت نے ان اساتذہ کو ایک پیغام دے دیا ہے جو تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے بجائے سیاست کرتے ہیں جبکہ پڑھانے والے اساتذہ کو عزت دینا حکومت کا فرض ہے۔
٭٭٭٭٭٭