لب آزادہیں میرے
اس حقیقت سے قطع نظرکہ پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کاپہلانہیں تودوسراگھرلندن ہی ہے اور لندن ہی کے اسٹیج پر تقریباً تمام سیاسی بساطیں بچھائی اورلپیٹی جاتی ہیں۔یہ شہرکبھی بھی میراپسندیدہ نہیں رہا۔بہرحال اس سب کے باوجود چھوٹے برادرم یاسرحبیب کی وہاں رہائش اور چنداحباب کی پرزوردعوت پرلندن جانا ہی پڑجاتا ہے۔اس دفعہ بھی ایک کانفرنس میں شرکت کاموقع ملا اوروہاں پاکستان ہی نہیںبلکہ دنیابھر سے آئے کئی لکھنے اوربولنے والوں سے ملاقات کاموقع ملا۔کئی احباب مختلف سماجی تنظیموں سے بھی وابستہ تھے جنہوں نے اپنے نقطہ نظرکااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اظہار خیال کی یہ آزادی انہیں صرف لندن ہی میں میسرہے ان برملاخیالات کااظہار اگر وطن عزیز میں ہوتا تو وہ معتوب ٹھہرتے۔چونکہ میراموضوع میراعشق،میری محبت”کشمیر“ہی ہے تو میری سب سماعتیں اور قوت گویائی کشمیر کے گرد ہی گردش کرتی رہیں کینیڈاسے تشریف لائے ہوئے عزیزم حمید بھاشانی نے کشمیر کے حوالے سے اپنی سوچ اورافکار کااظہار انتہائی مثبت انداز سے کیا بہرحال اپنی تمام ترکشمیریت کے باوجود پاکستان سے محبت بھی میری رگ وپے میں رچی بسی ہے(جس پراکثرہمارے نیشنلسٹ ساتھی تنقیدکااظہار بھی کرتے رہتے ہیں)اس لئے میں کشمیر سے اظہارعشق کے لئے کبھی پاکستان کو تنقید کانشانہ بنانے کاسوچ بھی نہیں سکی۔لندن کی غم آلودفضا میں اس دفعہ انتہائی محترم اورمتحرک کشمیری لارڈنذیر کی میزبانی سے بھی لطف اندوزہونے کاموقع ملا۔جنہوں نے ہاﺅس آف لارڈزکی تفصیلی سیر کراتے ہوئے مشہورزمانہ دریائے ٹیمز کے کنارے اپنی روایتی چائے سے لطف اندوزہونے کاموقع فراہم کرتے ہوئے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں اپنی کمیونٹی کے حوالے سے اپنے فکرانگیزخیالات کااظہارکیا۔کشمیر کے حوالے سے خصوصی توجہ کی درخواست میں ان کی نذرتوکرآئی ہوں مگرہنوزان کے جواب کاانتظار ہے۔کیونکہ میراخیال ہے کہ کشمیر کوبین الاقوامی سطح پراجاگرکرنے کے لئے ہمیں ان ہی جیسی مثبت شخصیات کی ضرورت ہے جوپرعزم اورباعمل ہونے کے ساتھ ساتھ تجربہ اورعلم سے بھی مالامال ہیں۔کانفرنس کے اگلے ہی روزانتہائی محترم بیرسٹرامجد ملک کی دعوت پر مانچسٹرروانگی ہوئی جنہوں نے’ایسوسی ایشن آف پاکستان لائیرز‘اے پی ایل کاسالانہ عشائیہ ہی کشمیریوں کے نام سے موسوم کردیا۔یہ ان کا انتہائی بڑاپن اورکشمیریوں کے ساتھ اخلاص کا عملی مظاہرہ تھا کہ وہ تقریب کے بیشترشرکاءپرسالانہ عشائیہ مظلوم کشمیریوں کے نام کرنے پر خوشدلی سے وضاحتیں پیش کرتے رہے کشمیر کے حوالے سے میرااظہارخیال پاکستان کے قونصل جنرل آف مانچسٹرمحترم عامرآفتاب قریشی کی طبع نازک پرنجانے کیوں گراں گزراجبکہ مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ پر صرف میں ہی نہیں بلکہ ہرذی ہوش سراپااعتراض ہے اورعالمی طاقتوں سے میری یہ درخواست کہ کشمیرکوزمین کے ٹکڑے کے تنازعہ کے طورپر حل کرکے اس کی بندربانٹ کرنے کے بجائے کشمیریوں کوجیتے جاگتے انسان سمجھ کرانسانی ہمدردی کی بنیادوں پریہ مسئلہ حل کیاجائے اورانسانی حقوق کے علمبردارکشمیریوں کو بھی انسان تصور کریں۔میراکشمیرکی بیٹی کا یہ مطالبہ نجانے کیوں مقدس سماعتوں پرتازیانہ بن کے لگا اور جواباً محترمی قونصل جنرل کاطویل خطاب جس کا بیشترحصہ کشمیر سے متعلق تھا ان کی صائب سوچ اور میرے حوالے سے انتہائی متنازعہ بیان تھا جسے صرف یہ سوچ کے انہیں اسی وقت جواب نہیں دے سکی کہ میں بیرسٹرامجد ملک کی محبتوں اورشفقتوں اورکشمیرکے حوالے سے منعقدہ تقریب کوبدمزہ نہیںکرنا چاہتی تھی میرے خیالات کے اظہار کوکاﺅنٹر کرنے کے لئے اگلے ہی روزچندکشمیریوں کومانچسٹرمیں پاکستان قونصلیٹ جاکے حلف وفاداری جاں پیش کرکے سعادت مندی ووفاداری کے سرٹیفکیٹ پرمہرلگانی پڑی۔مجھ جےسے کشمیری جوہمیشہ پاکستان کے وفادارکہلائے جاتے رہے ہیں ہمارے خیالات کے اظہار سے اس طرح غیرمحفوظ رویے کااظہاراس سوچ کوپیداکرتا ہے کہ کیاواقعی کشمیری اپنے وطن اوراپنے لئے سوچنے،بولنے اور لکھنے میں آزادہیں؟یہ ایک سوالیہ نشان ہے ہم سب کشمیریوں کے لئے۔